آخری عذاب ۔ ابویحییٰ
ہمارے ہاں جب کبھی بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو فوراً ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ یہ عذاب ہے یا نہیں۔ دوسری طرف ایک نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ یہ سر تا سر ایک قدرتی آفت ہے اور ایسی قدرتی آفات دنیا کی ساری قوموں پر ہر زمانے میں آتی رہتی ہیں۔
حال ہی میں کراچی میں شدید گرمی سے جو اموات ہوئیں، ان کے حوالے سے یہ بحث ایک دفعہ پھر سننے اور دیکھنے کو ملی۔ اس گرمی میں خبروں کے مطابق ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ انتقال کرگئے۔ لیکن درحقیقت مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ خبروں میں صرف ہسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد شائع ہوئی ہے۔ گھروں میں مرنے والوں کی تعداد جو ہسپتال نہیں گئے، اس سے کم نہیں۔ مجھے خود ایک گورکن نے بتایا کہ کراچی کے صرف ایک قبرستان میں پچھلے ایک ہفتے میں اس نے چار سو قبریں بنائی ہیں۔ جبکہ کراچی میں سو سے اوپر قبرستان ہیں۔
یہ ساری اموات اس سخت گرمی کی لہر سے ہوئیں جو دنیا بھر میں آئی ہے۔ یورپ میں بھی کئی مقامات پر چالیس ڈگری سے اوپر گرمی پڑی ہے جو ان کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ مگر وہاں اموات کا تناسب کافی کم ہے۔ کیونکہ وہاں نہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے نہ بے گھر لوگ اتنی تعداد میں ہیں نہ غربت و بدحالی کا وہ حال ہے جو یہاں ہے۔ یہیں سے یہ دوسرا نقطہ اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے کہ یہ کوئی مسلمانوں پر آنے والا عذاب نہیں بلکہ دنیا بھر میں پیش آنے والی قدرتی آفت ہے اور جو قوم جتنی بدحال ہے اسے اتنی ہی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جبکہ پہلا نقطہ نظر زور و شور سے اپنے موقف پر قائم ہے کہ یہ ہمارے گناہوں کے سبب آنے والا عذاب الٰہی ہے۔
اس حوالے سے درست نقطہ نظر کیا ہے، یہ ہمیں قرآن مجید کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں عذاب، آفات اور فتنوں کی مختلف اقسام بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ آفات ہیں جو لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں، لیکن یہ آفات صرف گناہ گاروں ہی پر نہیں بلکہ نیک و بد سب پر آتی ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کو متنبہ کرنا اور بڑے عذاب کے آنے سے قبل جھنجھوڑنا ہوتا ہے تاکہ لوگ توبہ اور رجوع کریں۔
ہمارے نزدیک موجودہ دور میں آنے والے سیلاب، زلزلے، موسمی شدت اور اسی نوعیت کی دیگر تباہ کاریاں اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی آفات ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید کے مطابق یہ آفات ہر نیک و بد پر آتی ہیں اور اس لیے آتی ہیں کہ ان کو جھنجھوڑا جائے۔ جبکہ عذاب الٰہی صرف بدکاروں پر آتا ہے۔ نیک و بد دونوں اس کی لپیٹ میں نہیں آتے۔ یہ مسلمانوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے آنے والا عذاب بھی نہیں۔ گرچہ مسلمانوں کی جب پکڑ ہوتی ہے تو اس میں نیک و بد دونوں زد میں آتے ہیں، مگر مسلمانوں پر ان کی بد اعمالیوں کے سبب جس قسم کی گرفت ہوتی ہے اس کی نوعیت جدا ہوتی ہے۔ اس پر میں نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنے نئے آنے والے ناول ’’آخری جنگ‘‘ میں گفتگو کی ہے۔
چنانچہ ہمارے نزیک یہ وہی آفات ہیں جن کا اصل مقصد جھنجھوڑنا ہوتا ہے۔ ان کے اثرات نیک و بد دونوں پر ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں ان آفات کے بار بار آنے کا سبب قیامت کے حادثے کا قریب آجانا ہے۔ مگر جدید دنیا کے لوگ قیامت سے بالکل غافل ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا کا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا اس لیے ان قدرتی آفات کے جھٹکوں سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔
یہ تاثر بالکل درست نہیں ہے کہ یہ محض قدرتی آفات ہیں۔ بلاشبہ یہ قدرتی آفات ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ جو قومیں زیادہ تیار ہوتی ہیں ان میں نقصانات قدرے کم ہوتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ اب یہ آفات ایک تواتر سے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ بعض اوقات ان کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت زیادہ نقصانات ہوجاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
یہی وقت ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے۔ وہ انسانیت کو قیامت کا انذار کریں۔ اس آخری عذاب کے آنے سے قبل لوگوں کو ہوشیار کر دیں جو پوری انسانیت کو ہلاک کر دے گا۔ آج انسانیت خدا کے انکار کی مجرم ہوچکی ہے۔ یہ شرک سے بڑا جرم ہے۔ دنیا نے زنا اور ہم جنس پرستی کو عین انسانیت بنا دیا ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا بدترین جرم ہے۔ سود آج پوری دنیا کے خمیر میں شامل ہوچکا ہے اور پوری پوری قومیں آج اس کی زنجیروں میں جکڑی جا چکی ہیں۔
یہی وقت ہے کہ عالمی انذار عام شروع کیا جائے۔ یہی وقت ہے کہ سرکار دو عالم کی تعلیمات کو انسانیت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس لیے کہ اب سب کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ آخری عذاب کا وقت آرہا ہے۔ قیامت کا وقت آرہا ہے۔ جس نے رجوع کرنا ہے وہ کر لے۔ یہی دنیا کو بتانے کا کام ہے۔