ایشوریا رائے ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک خاتون کا انٹرویو کیا گیا تھا۔ یہ خاتون کنول چیمہ تھیں جو معروف نیٹ ورکنگ کمپنی سسکومیں کئی برس ملازمت کرنے کے بعد پاکستان لوٹیں۔ یہ پاکستان میں رہ کر فلاحی کاموں کو اپنے پیشہ ورانہ پس منظر میں دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
میں نے ان کی ایک دو اور چیزیں سنیں جس سے اندازہ ہوا کہ خدا اور مذہب ان کے اندر گہرے طور پر موجود تھا۔ تاہم اسی دوران میں معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر ان کو مقبول کرنے والی چیز ان کا کام نہیں، بلکہ بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے سے ان کی مشابہت ہے۔ یہ چیز نہ ہوتی تو شاید لوگ ایک قابل خاتون کی خدمات اور خیالات سے واقف نہ ہوپاتے۔
اسی دوران میں مجھے ایک اور تجربہ ہوا۔ میں اپنی زیر تکمیل ڈاکومنٹری کی شوٹنگ کے لیے سری لنکا اور ترکی گیا۔ یہ دونوں ممالک پاکستان سے زیادہ سخت معاشی بحران کا شکار رہے ہیں۔ میں نے اس معاشی بحران کی وجوہات سمجھنے کے لیے تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ اس حوالے سے سارے تجزیے مغربی ماہرین کے ہیں یا بھارتی ماہرین کے۔ اہل پاکستان کو سیاست اور انٹرٹینمنٹ کے سوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ سیاستدان یا ان کی کرپشن نہیں، ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی قابل خاتون کی صلاحیت کے بجائے اس کی شکل و صورت میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہمیں ایشوریا رائے میں زیادہ دلچسپی ہے، ان بھارتی ماہرین میں نہیں جو اپنی کامیاب معاشی پالیسی کا موازنہ ترکی سے کرکے اپنے لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح انھیں ترکی جیسی غلطیاں کرنے سے بچنا چاہیے۔ جس قوم کا یہ حال ہو، اسے تباہی کے لیے کسی سیاستدان کی ضرورت نہیں۔