ایک تھے پاپا ۔ پروفیسر محمد عقیل
ایک دن میں اپنی چار سالہ بیٹی علینہ کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ میں نے اس سے کہا بیٹا کہانی سناؤ۔ وہ کہنے لگی:
’’ایک تھے پاپا، وہ مرگئے۔ کہانی ختم پیسہ ہضم۔‘‘
میں یہ سن کر سناٹے میں آگیا۔ پھر میں نے اس سے کہا بیٹا یہ بات اپنی ماما کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہاری پٹائی لگا دیں گی۔ پھر میں سوچ میں پڑگیا کہ واقعی میری کہانی تو بس یہی ہے جو میری بیٹی نے بیان کی۔ ایک تھے پاپا اور وہ مرگئے کہانی ختم پیسہ ہضم۔ مجھے یوں لگا یہ پیغام اللہ نے چار سالہ علینہ کے ذریعے دلوا دیا ہو۔
موت اکثر لوگوں کے نزدیک ایک ایسی بات ہے جس کا ذکر بھی وہ گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ موت ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ یہ ایک نئی صبح کا پیغام ہے۔ یہ اس ابدی زندگی کی ابتدا ہے جسے کبھی ختم نہیں ہونا، جسے کوئی موت نہیں آنی۔ موت وہ دروازہ ہے جو غیب کی جانب کھلتا ہے۔ یہ وہ زینہ ہے جس پر چڑھے بغیر جنت کا حصول ممکن نہیں، یہ وہ کھڑکی ہے جس سے فرشتوں کا نظارہ ممکن ہے۔
وہ کیسا منظر ہوگا جب ہم قبر سے اٹھائے جائیں گے۔ افراتفری، ابتری، بے چینی بے بسی۔ لیکن اگر ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو بے حساب جنت میں داخل ہونگے تو پھر حشر کی سختیاں ہمارے لیے نہ ہوں گی۔ پھر تو ہم حشر میں ایک ناظر کے طور پر موجود ہوں گے۔ کتنا حسین ہوگا وہ منظر جب پروردگار کا تخت فرشتے اٹھائے حاضر ہوں گے، رب کی حضوری ہوگی، اس کی شفقت و رحمت کا جلوہ ہوگا۔
اگر ہم السابقون میں ہوئے تو رسولوں کی معیت ہوگی، جنت کے گھر میں اپنی بادشاہت ہوگی۔ ادھر ہم نے سوچا ادھر وہ چیز حاضر۔ کبھی جی چاہا تو موسم ہی بدل دیا، کبھی جی چاہا تو آسمانوں سے دور ایک دنیا آباد کرلی۔ کبھی جی چاہا تو ماضی کے خیالوں میں جا کر خود کو دیکھا، کبھی سوچا تو پھولوں کی وادی میں کھو گئے۔ کبھی خود کو دیکھا تو ریشم اور اطلس کا لباس، ہاتھوں میں سونے کے کنگن، سر پر یاقوت کا تاج، انگلیوں میں زمرد کی انگوٹھی۔
کبھی جی چاہا کہ دیکھیں تو اپنے گمراہ دوستوں کا حال۔ تو جہنم میں جھانکیں گے۔ ہولناکی عروج پر ہوگی ۔ آہیں، سسکیاں، چیخیں، دھاڑیں، رونا، بلبلانا۔ ہر طرف خون اور گوشت کے لوتھڑے، زخموں کے چیرے، کٹی ہوئی ناکیں، پھوٹی ہوئی آنکھیں، پھٹے ہوئے سر۔ کھانے میں پیپ اور زخموں کا دھوون۔
جب گھبرا کے جنت کو دیکھیں گے تو فرشتے کھڑے ہونگے۔ وہ سلام قولا من الرب الرحیم کہہ رہے ہوں گے۔ رب سے ملیں گے، اس کے قدموں میں سر رکھیں گے اور رکھے رہیں گے۔ اب ہم کچھ نہ کہیں گے کہ کہنے کو کچھ باقی ہی نہ رہا، کرنے کو کچھ باقی نہ رہا۔
لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم سب کی کہانی ختم نہ ہو بلکہ درست طریقے سے ختم ہو۔ کاش کہانی کا انجام یوں ہو۔
ایک تھے پاپا، وہ خدا کی رضا پر مر گئے۔ پھر زندگی شروع اور امتحان ختم۔