آخری معجزہ ۔ ابویحییٰ
محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 571 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ چالیس برس کی عمر میں آپ نے اعلان نبوت کیا۔ آپ کی دعوت کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگوں غیر اللہ کی پرستش چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آؤ جس کے حضور تمھیں ایک روز پیش ہونا ہے۔ اس روز جو ایمان اور اچھے اعمال کا سرمایہ ساتھ لایا جنت کی ابدی بادشاہی اس کا مقدر بنا دی جائے گی۔ جو نافرمانی اور گناہ ساتھ لایا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔ یہی آپ کی اصل دعوت تھی۔ مگر ساتھ ہی آپ نے اپنے مخاطبین کو واضح طور پر یہ بتا دیا تھا کہ ایمان لانے والوں کو نہ صرف عرب بلکہ متمدن دنیا کا اقتدار بھی دے دیا جائے گا اور منکرین کی جڑ ان کی اپنی زمین یعنی مکہ اور عرب سے بھی کاٹ دی جائے گی۔
13 برس تک آپ مکہ میں یہی دعوت دیتے رہے۔ جب بات واضح ہوگئی تو اللہ کے حکم سے آپ نے مدینہ ہجرت کی۔ جس کے بعد وہ نتائج نکلنے شروع ہوگئے جن کی آپ نے خبر دی تھی۔ دو ہجری میں میدان بدر میں آپ کے دشمن تمام اہم سرداران مکہ قتل کر دیے گئے۔ آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور 11 ہجری 632 عیسوی میں جب آپ رخصت ہوئے تو سرزمین عرب پر ایک بھی مشرک نہ رہا تھا اور کل عرب پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوچکا تھا۔
اس کے بعد آپ پر ایمان لانے والوں کا زمانہ شروع ہوا اور حضرت عثمان کے زمانے میں سن 650 عیسوی تک موجودہ پاکستان سے لے کر شمالی افریقہ اور وسط ایشیا میں بحیرہ کیسپین سے لے کر بحیرہ روم کے دور دراز جزائز یعنی قبرض اور رہوڈز(Rhodes) تک پوری دنیا مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ اس عرصہ میں عظیم ترین سپر پاور ساسانی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور عظیم رومی سلطنت ایشیا اور افریقہ سے شکست کھا کر بے دخل ہو چکی تھی۔
جنگ بدر یعنی 623 سے فتح رہوڈز 648 عیسوی تک اس عرصہ میں مسلمانوں کا عالم عرب و عجم پر یہ غلبہ نہ صرف انتہائی تیز رفتار ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ حریفوں کے مقابلے پر کمزور رہے، مگر فتح حاصل کی۔ تاہم جب اللہ کے رسول کی نافرمانی کی تو جنگ میں فتح یاب ہونے اور تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مثلاً احد میں مسلمان جنگ جیت رہے تھے، مگر جب پہاڑ پر متعین دستے نے اپنی جگہ چھوڑی تو جیتی ہوئی بازی ہار دی۔ حنین میں مسلمان تیرہ ہزار تھے، مگر پھر ہوازن کے تیر اندازروں نے ان کے قدم اکھاڑ دیے۔
تاہم بدر میں تین گنا زیادہ دشمن کو شکست دی۔ جنگ خندق میں مدینے کی کل آبادی سے زیادہ بڑی فوج کو نامراد لوٹایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہا تو حنین میں ہاری ہوئی جنگ کا نقشہ پلٹ گیا۔ آپ کے بعد پورا عرب جھوٹے نبیوں، منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کی زد میں تھا مگر مسلمانوں نے ان سب کو شکست دی۔ پھر بیک وقت دنیا کی دو عظیم سپر پاورز سے جنگ شروع کی۔ ایران کے ساتھ قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ میں دو لاکھ ایرانیوں اور روم کے ساتھ یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں چار لاکھ رومیوں کے مقابلے میں تیس چالیس ہزار مسلمان تھے۔ مگر ہر دفعہ فتح ان کا مقدر رہی۔
اس ساری تفصیل کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کا یہ غلبہ جس کا وعدہ اللہ نے ان سے کیا تھا، بے شک ایک عظیم معجزہ تھا۔ اللہ نے ہر پیغمبر کو معجزے عطا کیے ہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن مجید ہے جو کئی پہلوؤں سے معجزہ ہے۔ اس معجزہ میں یہ خبر بہت پہلے دے دی گئی تھی کہ کفار مکہ کی جڑ کاٹ دی جائے گی اور سارے عرب میں کل دین اللہ کے لیے ہوجائے گا۔ ایمان والے زمین کے حکمران بنا دیے جائیں گے۔ یہ وعدے پورے ہوگئے۔ تاکہ دنیا جان لے کہ جو وعدے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے بارے میں کیے ہیں وہ بھی ایسے ہی پورے کیے جائیں گے۔