آگ اور تیل ۔ ابویحییٰ
محرومی اور ذلت کا سامنا کرنا انسانوں کے لیے ہمیشہ ایک اذیت ناک تجربہ ہوتا ہے۔ یہ تجربہ اگر حال ہی میں پیش آئے تو اذیت کے ساتھ پچھتاووں کی آگ بھی وجود انسانی کو جھلس دیتی ہے۔ اس آگ کی تپش اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب اپنے جانے پہنچانے لوگ ارد گرد ہوں اور اپنی انگلیاں دانتوں میں دبائے نامرادی اور رسوائی کی اس جلتی پر شرمندگی و ندامت کا تیل ڈال رہے ہوں۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے مجرموں کو جب ذلت و محرومی کا سامنا ہوگا تو اس کے ساتھ پچھتاوے اور ندامت کو بڑھانے والے سارے عناصر بھی اس موقع پر جمع کر دیے جائیں گے۔ ارشار باری تعالیٰ ہے:’’اور جس دن اللہ ان کو اکٹھا کرے گا وہ محسوس کریں گے کہ گویا بس وہ دن کی ایک گھڑی (ہی دنیا میں) رہے۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے۔‘‘، (یونس45:10)۔
اس آیت کا پہلا جملہ یہ بتا رہا ہے کہ نافرمان لوگ بروز قیامت ماضی میں گزری ہوئی زندگی کو ایسا محسوس کریں گے گویا شام قیامت سے قبل دن کی ایک گھڑی میں وہ دنیا میں رہے۔ صبح و شام کا یہ معاملہ انہیں پچھتاووں کے ختم نہ ہونے والے عذاب میں مبتلا کر دے گا کہ کاش وقت کا پہیہ ذرا پیچھے گھومے اور وہ صبح زندگی میں لوٹ کر اپنے اعمال کو بہتر بنالیں۔ مگر یہ ممکن نہ ہوگا اور ماضی بعید ماضی قریب بن کر ان کے عذابوں میں اضافہ کرتا رہے گا۔
ان کا دوسرا عذاب یہ ہوگا کہ نامرادی اور ذلت کے ان لمحات کے گواہ ان کے جانے پہنچانے سارے لوگ ہوں گے۔ لوگ انہیں پہنچانتے ہوں گے اور وہ لوگوں کو۔ یوں ذلت کی قبا اوڑھے ان لوگوں کو دیکھنے والی ہزاروں محرم نگاہیں میدان حشر میں ہوں گی جو قبائے ذلت میں جابجا ندامت کے پیوند لگا رہی ہوں گی۔
کیسی عجیب ہے قیامت کی نامرادی اور کیسی شدید ہے اس روز کی رسوائی۔