طوفان اور جھونکا ۔ ابویحییٰ
اس دنیا میں انسان جن لطیف ترین تجربات سے گزر سکتا ہے ان میں سے ایک ہوا کا وہ نرم جھونکا ہے جس کا لمس روح انسانی میں سرشاری کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ انسان میں یہ کیفیت پیدا کرنے والی یہ نرم و لطیف ہوا پندرہ سے بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔
وقت، موسم اور جگہ کے تغیر کے لحاظ سے اس ہوا کی رفتار میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے تاہم عام حالات میں ہوا اسی رفتار سے چلتی ہے۔ انسان اس ہوا میں سانس لیتے، موسم کی تپش میں ٹھنڈک کا مزہ اٹھاتے اور سبک سر ہوا کے جھونکے میں زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔ مگر انہیں کبھی یاد نہیں آتا کہ کائنات کے اس جہنم کدے میں جہاں یا تو بغیر ہوا کا خلا ہے یا پھر دہکتے ہوئے ستارے، وہاں یہ نرم و لطیف ہوا کس نے پیدا کی ہے۔
چنانچہ انسانوں کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے خالق کائنات کبھی کبھار اس ہوا کی لگام چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ہوا طوفان کی شکل میں اٹھتی ہے اور راہ میں آنے والی ہر چیز کو پٹخ دیتی ہے۔ امریکہ کے حالیہ سپر اسٹورم سینڈی میں بھی یہی ہوا نوے میل (ڈھیڑھ سو کلومیٹر) فی گھنٹہ کی طوفانی رفتار سے چلی اور سامنے آنے والی ہر چیز کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس ہوا نے کئی میٹر بلند طوفانی لہروں کو اٹھایا۔ راہ میں آنے والے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ بحری جہازوں، گاڑیوں اور گھروں کو شدید نقصان پہنچایا اور انسانوں میں سے بھی جو اس کی زد میں آیا اسے زندگی سے محروم کر دیا۔
اس کائنات میں نرم ہوا اپنے خالق کا غالباً خوبصورت ترین تعارف ہے۔ انسان اس تعارف کو دن رات محسوس کرتا اور اسی میں جیتا ہے، مگر اس خالق کی تعریف نہیں کرتا۔ اس لیے کبھی کبھی سینڈی آجاتا ہے۔ ۔ ۔ انسانوں کو یاد دلانے کہ اس ہوا کی لگام اگر ر ب نہ تھامے ہوئے ہو تو انسان دنیا میں جی سکتے ہیں نہ اپنی دنیا بسا سکتے ہیں۔