اللہ کو دیکھنا اللہ کا دیکھنا ۔ ابویحییٰ
حدیث کی کتابوں میں ایک بہت اہم روایت بیان ہوتی ہے جسے حدیث جبریل کہا جاتا ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل علیہ السلام کا ایک مکالمہ نقل ہوا ہے جو دین کے بنیادی حقائق کا نہایت جامع بیان ہے۔ اس مکالمے میں ایک جگہ حضرت جبریل سوال کرتے ہیں کہ احسان کیا ہے؟ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھتے ہو۔ تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تو تمھیں دیکھتا ہی ہے۔
قَالَ فَاَخْبِرْنَی عَنِ الْاِ حْسَانِ، قَالَ:اَنْ تَعْبُدُاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔
احسان کی یہ تعریف حقیقی معنوں میں اس بات کا ایک مکمل اور جامع بیان ہے کہ بندہ مومن کے حسن عمل کی اساس کیا ہوتی ہے۔ وہ اساس دراصل خدا وندد و عالم کی حضوری میں جینا ہوتا ہے۔ وہ اساس اس احساس میں اپنے شام و سحر کو گزارنا ہوتا ہے کہ بندہ رب کے اور رب بندے کے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الوہی قربت کے اس ذاتی تجربے کو بلاغت کی انتہا پر پہنچاتے ہوئے اس طرح بیان کر دیا کہ بندہ مومن تو اس طرح بندگی کی زندگی جیتا ہے کہ گویا رب کریم ہمہ وقت اس کی نگاہوں میں ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ پروردگار عالم وہ ہستی ہے کہ لایدرکہ الابصار۔ ایسی صورت میں کہ جب نگاہیں اسے نہیں پاسکتی تو قربت الہی کی کیفیت کو تازہ رکھنے کا دوسرا راستہ اس بات کا یقین ہے کہ بندہ خالق کو نہ دیکھ سکے تو کیا ہوا خالق تو ضرور ہی اسے دیکھ رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں نفسیاتی سطح پر نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
اس بات کو دور جدید میں روزمرہ استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی نے بالکل واضح کر دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بڑی دکانوں اور شاپنگ سنٹرز میں بہت بڑی تعداد میں اشیائے صرف فروخت کے لیے رکھی ہوتی ہیں۔خریداری کے لیے آنے والے کسی بھی شخص کے لیے بظاہر بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ کسی چھوٹی مگر قیمتی چیز کو اپنے کپڑوں وغیرہ میں چھپا لے اور بغیر قیمت دیے چوری کر کے لے جائے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دکاندار نگرانی کے کیمرے استعمال کرتے ہیں۔ کیمروں کے ساتھ جگہ جگہ ایک جملہ نمایاں کر کے لکھ دیا جاتا ہے۔ "خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔”
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بری نیت سے شاپنگ سنٹر میں آنے والا شخص ڈر جاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر اسے چیزوں کے درمیان شاپنگ سنٹر کا مالک یا اس کا کوئی ملازم نظر نہیں آ رہا، مگر اس کی اپنی ایک ایک نقل و حرکت کیمرے کے ذریعے سے یہاں کے ذمہ داروں تک منتقل ہو رہی ہے۔ وہ گرچہ نہیں دیکھ رہا مگر اسے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ چوری کرے گا تو فوراً نظر میں آجائے گا۔ یہی احساس ایسے لوگوں کو چوری چکاری سے روک دیتا ہے۔
کیمرے کی نگرانی کا یہ معاملہ واضح کر دیتا ہے کہ انسان کسی کو دیکھے یا اسے یہ احساس ہو کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے۔ یہی بات حدیث جبریل میں احسان کے حوالے سے سمجھائی گئی ہے کہ اللہ کا بندے کو دیکھتے رہنا حسن عمل کے پہلو سے بندے کا اللہ کو دیکھنے کے برابر ہے۔ یہ چیز نہ صرف انسان کو برے عمل سے روکتی ہے بلکہ اس کی عبادت اور عمل صالح میں خوبصورتی، جمال، کمال اور سب سے بڑھ کر اخلاص پیدا کرتی ہے۔ بندہ جس کے لیے کام کرتا ہے ہمہ وقت خود کو اس کے سامنے سمجھتا ہے۔ وہ اپنے مالک کو نہیں دیکھ پا رہا تو کیا ہوا اس کا مالک تو اسے دیکھ ہی رہا ہے۔