فضائل انبیاء ۔ ابویحییٰ
سوال: پچھلے کئی برسوں سے میرے ذہن میں ایک سوال تھا۔ میں نے مختلف علماء سے پوچھنے کی کوشش کی مگر جواب نہیں ملا۔ آپ کی طرف سے امید رکھتی ہوں کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن و حدیث میں کسی جگہ آیا ہے کہ تمام انبیا کرام میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اعلیٰ رتبہ ہے۔ میں نے کئی مرتبہ قرآن پاک پڑھا ہے بمع ترجمعہ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم بھی پڑھی ہے، مگر مجھے اس سوال کا جواب کہیں نہیں ملا۔ بخاری اور مسلم میں کئی احادیث میں ہے کہ ’’مجھے انبیا کرام پرفضیلت نہ دو‘‘ جبکہ ہم تو یہ نعت سنتے ہیں ’’سارے نبی تیرے درکے سوالی‘‘۔ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پرعمل کریں۔ برائے مہربانی میرے سوال کا جواب قرآن کریم کی سورتوں یا حدیث شریف کے حوالے کے ساتھ ارسال کیجیے؟ (میمونہ صاحبہ)
جواب: آپ نے دریافت فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیا سے افضل ہیں آیا یہ بات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ قرآن و حدیث میں یہ بات بیان نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ جیسا کہ آپ نے خود بھی نقل کیا ہے کہ انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ کرنے سے روکا گیا ہے۔
انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے سے روکنے کی اپنی وجوہات ہیں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مختلف خصوصیات میں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور قرآن پاک میں ان فضائل کو بیان بھی کیا ہے،(بقرہ253:2)۔ جس روایت کا اقتباس آپ نے نقل فرمایا ہے اسی روایت میں حضور نے نہ صرف انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ کرنے سے روکا ہے بلکہ اپنے اوپر حضرت موسیٰ کی ایک بڑی فضیلت کو بھی بیان کیا ہے۔ یعنی روز قیامت جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو حضور سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے اور دیکھیں گے کہ سیدنا موسیٰ عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے۔ پھر حضور فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور کی بے ہوشی کے بدلے میں اس روز کی بے ہوشی سے بچا لیے گئے۔ (بخاری، رقم 3233)
آپ نے مختلف مواقع پر دیگر انبیا کے فضائل بھی بیان کیے ہیں جیسے ایک موقع پر جب حضور کو خیر الخلائق کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تو ابراہیم تھے۔ (ابی داؤد:رقم4672)۔ ایک موقع پر سب سے زیادہ باعزت انسان کے متعلق پوچھا گیا تو حضرت یوسف کا نام لیا،(بخاری:رقم 3194)۔ اسی طرح حضور نے اپنی فضیلت کے بعض پہلو بھی گنوائے۔ مثلاً ایک روایت میں فرمایا کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا،(مسلم:رقم2278)۔ اسی طرح دیگر انبیا پر اپنی فضلیت کے چھ پہلوؤں کو اس طرح گنوایا:
’’مجھے نبیوں پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے:
۱) مجھے جامع کلام کرنے کا ملکہ دیا گیا ہے۔
۲) رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔
۳) غنائم کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے۔
۴) زمین کو میرے لیے پاکیزہ اور سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔
۵) مجھے تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔
۶) نبوت مجھ پر ختم کی گئی ہے۔‘‘، (مسلم:رقم523)۔
ان احادیث میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو قرآن نے بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کو دوسرے رسول پر کسی نہ کسی پہلو سے ممتاز کیا ہے،(بقرہ253:2)، تاہم یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت دیں جیسا کہ اوپر بخاری کی روایات سے ظاہر ہے۔ اس سے بڑھ کر حضور نے اپنی مدح سرائی میں مبالغہ کرنے سے ہمیں روکا ہے۔ جیسا کہ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہے:
’’سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جیسے انصار نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا، میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور کچھ نہیں، پس اس طرح کہو کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول۔‘‘،(بخاری :رقم3261)
تاہم اس تمام ہدایت کے باوجود بدقسمتی سے یہ سانحہ پیش آگیا ہے کہ مسلمان وہ سب کر رہے ہیں جس سے روکا گیا تھا۔ حتیٰ کے دیگر انبیا کو حضور کے در کے ’سوالیوں‘ کے مقام پر پہنچا دیا گیا ہے، حالانکہ قرآن پاک میں حضور کو ان نبیوں کی لائی ہوئی ہدایت کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، (انعام90:6)۔ اوپر کی روایات سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ بات سن لیتے تو کس قدر ناراض ہوتے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا یہی طرز عمل ہے جس کی بنا پر غیر مسلم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ اس کے نتیجے میں دین کی دعوت کاعمل متاثر ہوتا ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں کو یہی تلقین کی جاسکتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ان کی بات ماننے کا نام ہے، ان کی مرضی کے خلاف اپنی خواہشات پوری کرنے کا نام نہیں۔