سیاچن کا جہنم ۔ ابویحییٰ
سیاچن کا گلیشیر جو دنیا کا سب سے بلند میدان جنگ ہے سن 1984 سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کا سبب بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں یہاں ایک برفانی تودہ (avalanche) گرنے سے 138 پاکستانی فوجی برف تلے دفن ہوگئے ہیں۔ کئی دن گزر جانے کے بعد اب اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ ان میں سے کسی شخص کو زندہ بچایا جاسکے گا۔
اس واقعے کے پس منظر میں میڈیا میں سیاچن کا ذکر کئی پہلوؤں سے آرہا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو وہ ہے جس میں سیاچن کے شدید موسم کا بیان ہو رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر چلنا پھرنا اور کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ وہاں سردی کی شدت کی بنا پر فوجیوں کی اموات اور ان کے اعضا کے ناکارہ ہو جانا ایک معمول کی بات ہے۔ دونوں طرف کے فوجیوں کی ہلاکتیں ایک دوسرے کے بجائے موسم کے ہاتھوں زیادہ ہوتی ہیں۔ بلکہ 2003 کی جنگ بندی کے بعد تو ہلاکتوں اور معذوریوں کا واحد سبب شدید موسم ہے۔
سیاچن گلیشیر کے موسم کی یہ شدت ہم سب کے لیے اپنے اندر بڑا غیر معمولی پیغام رکھتی ہے۔ سیاچن کا یہ موسم ہم سب کو پکار کر یہ بتا رہا ہے کہ ان کا رب کس قدر مہربان ہے جس نے ان کے لیے اس زمین کا غالب ترین حصہ زندگی کے لیے انتہائی موزوں بنایا۔ یہاں سانس لینے کے لیے آکسیجن ہے۔ متوازن اور قابل برداشت درجہ حرارت ہے۔ موسموں کا تنوع ہے۔ خوراک اور پانی کا وافر انتظام ہے۔ جبکہ زمین جس کائنات میں واقع ہے، وہاں ہوا، پانی، سبزے اور موسموں کا تو ذکر ہی جانے دیجیے، ہر جگہ سیاچن سے کہیں زیادہ خوفناک اور زندگی کے لیے زہر قاتل درجہ حرارت پائے جاتے ہیں۔
مگر اکثر انسان اس حقیقت سے بے خبر جیے جاتے ہیں۔ وہ رب کی نعمتوں پر شکر کرنے کے بجائے ناشکری کرتے ہیں۔ وہ زمین اور اس کے وسائل اور سہولیات کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انہیں کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آتا ہے کہ انہیں جو کچھ ملا ہے اسے دینے والا ان کا خالق و مالک ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی شکر گزاری اور فرمانبرداری کریں۔
ایسے ہی بے خبر انسانوں کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روئے ارض پر سیاچن جیسے برفانی جہنم بنائے ہیں۔ مگر جب انسان ہوش کے ناخن نہیں لیتے اور اپنی غفلت سے باز نہیں آتے تو برفانی تودے (avalanche) خوف الہی سے لرز اٹھتے ہیں اور عظمت رب کے احساس سے نیچے آگرتے ہیں۔ شائد کہ ان کا گرنا دیکھ کر غافل بندے بھی سجدے میں گر جائیں۔ رب کے احسان کو مان لیں اور اس کی شکر گزاری شروع کر دیں۔
رہے وہ لوگ جنہیں سیاچن کے برفانی تودے (avalanche) بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا وہ ہمالیہ کے پھٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اب زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ قیامت کے زلزلے کے ساتھ ہمالیہ بھی پھٹ جائے گا۔ کہیں کوئی جائے پناہ باقی نہیں بچے گی۔ انسانوں کا گہوارہ یہ زمین ہی ان کا قبرستان بنا دی جائے گی۔ مگر اس روز کی توبہ کسی کے کام نہیں آئے گی۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو سیاچن کے اس برفانی جہنم کے احوال سن کر اپنے رب کی شکر گزاری کا احساس پیدا کرلیں۔ کیونکہ کل ایسے ہی شکر گزار لوگ ہمیشہ کے لیے جنت کی ابدی نعمتوں میں بسا دیے جائیں گے۔