مضامین قرآن: سورۃ البقرۃ (1) ۔ ابویحییٰ
سورۃ البقرہ (1)
سورہ بقرۃ کا تعارف
مضامین قرآن میں آج سے ہم سورہ بقرۃ کا مطالعہ شروع کریں گے۔ یہ قرآن مجید کی طویل ترین سورت ہے جو 286 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی موضوع الله تعالیٰ کی اس ہدایت و رہنمائی کا بیان ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی نسل اور اس کی دو اہم شاخوں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کو دی گئی تھی۔ اس ہدایت کے ساتھ اس بات کی تفصیل ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے تھا اور انہوں نے کیا کیا۔ یہ مرکزی مضمون تین اجزا میں بیان ہوا ہے۔ ان اجزا سے پہلے ایک تمہید ہے جو آیات نمبر 1 تا 39 پر مشتمل ہے۔ اس تمہید میں الله تعالیٰ کی ہدایت، اس ہدایت پر مخاطبین کا ردعمل اور ہدایت کے ضمن میں الله تعالیٰ کے اس منصوبے کا بیان ہے جس کے تحت یہ دنیا بسا کر انسانوں کو اختیار و آزادی کی نعمت عطا کی گئی۔
سورت کے تین حصے
تمہید کے بعد سورت کا پہلا جز شروع ہوتا ہے جو آیت نمبر 40 سے 121 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حصے میں یہ بیان ہوا ہے کہ نزول قرآن سے قبل جن یہود کو الله تعالیٰ نے ہدایت عطا کی ان کا رویہ کیا رہا ہے۔ وہ کیا خرابیاں تھیں جن کا ان میں ظہور ہوا۔ یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا یہ فیصلہ آگیا کہ انہیں منصب امامت سے معزول کرکے ذریت ابراہیم کی دوسری شاخ یعنی بنی اسمائیل کو اس منصب پر فائز کردیا جائے۔
اس چیز کا بیان سورت کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے جو آیت نمبر122 سے 162 تک ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہود پر الله کے غضب کے بعد اب ایک نئی امت کو اٹھایا جارہا ہے۔ منصب امامت میں اس تبدیلی کی علامت تحویل قبلہ ہے۔ یعنی بیت المقدس کی جگہ اب بیت الله الحرام کو تا قیامت اہل ایمان کا قبلہ قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم یہ منصب پہلے بھی حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کے پاس تھا اور اب بھی انہیں کے پاس ہے۔ پہلے ان کے صاحبزادے حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیھما السلام کی اولاد اس منصب پر فائز تھی اور اب ان کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اس منصب پر فائز ہورہی ہے۔
تیسرا حصہ آیت نمبر 163 سے 283 تک ہے۔ اس حصے کا موضوع نئی امت کی ذمہ داریوں کا بیان ہے۔ اس حصے میں اس نئی ہدایت الہی یعنی اس شریعت کا بیان ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پہلی دفعہ نازل ہورہی تھی۔ ساتھ ساتھ ہر جگہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس شریعت کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے تقویٰ یعنی خدا خوفی کی وہ نفسیات لازمی ہے جو یہود میں سے ختم ہوچکی تھی۔ سورت کا خاتمہ (آیت 284 تا 286) ایک عظیم دعا پر ہوتا ہے۔ یہ دعا ان عظیم ذمہ داریوں کا بیان بھی ہے جو نئی امت پر ڈالی گئی ہیں اور اس بات کی درخواست بھی کہ پروردگار ان بھاری ذمہ داریوں کا بار اٹھانا نئی امت پر آسان کردے۔
مضامین سورۃ بقرۃ
سورہ فاتحہ کے برعکس جو ایک چھوٹی سورت تھی ہم سورۃ بقرۃ کے مضامین کا مطالعہ ایک ساتھ نہیں کریں گے۔ ہمارا طریقہ یہ ہوگا کہ کچھ آیات لیتے جائیں گے اور ان میں موجود مضامین کا مطالعہ عنوانات کے تحت کرتے جائیں گے۔ ابتدائی پانچ آیات درج ذیل ہیں:
’’یہ الف،لام،میم ہے۔ یہ کتاب الہی ہے۔ اس کے کتابِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔ ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پراتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے۔ اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ 5-1 )
سورہ بقرۃ کی یہ ابتدائی پانچ آیات ان اہم ترین قرآنی مقامات میں سے ایک ہیں جو اس بات کا واضح بیان ہیں کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا چاہتے ہیں اور آخرت کی فلاح و نجات کن اعمال اور کس رویے پر منحصر ہے۔ سورۃ بقرۃ کی یہ آیات مدینہ میں نازل ہونے والی ابتدائی آیات میں سے ہیں، جب یہود کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی۔ چنانچہ یہاں مطالبات اسی پس منظر میں کیے گئے ہیں۔ اس مقام پر جن مطالبات کو واضح طور پر بیان کیا جارہا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ تقویٰ
تقویٰ کا لفظی مطلب بچنا ہے۔ قرآن کا مقصد چونکہ جہنم کے نقصان اور جنت کی محرومی سے بچانا ہے اس لیے اس کی یہ دعوت صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ’تقویٰ‘ یعنی نقصان اور محرومی سے بچنے کی نفسیات میں جی رہے ہوں۔ ایک عام انسان اپنی زندگی اسی ’تقویٰ‘ کے اصول پر گزارتا ہے۔ یعنی وہ ہر نقصان اور تکلیف سے بچنا چاہتا ہے۔ اس کی ساری تگ و دو بھوک، پیاس، بے گھری، بے روزگاری وغیرہ سے بچنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس طرح ہر انسان اصل میں متقی ہوتا ہے۔ قرآن بس اتنا کہتا ہے کہ اپنے تقویٰ کا رخ دنیا کے ساتھ آخرت کی طرف بھی کرلو۔ یعنی آخرت کے نقصان سے بچنے کی بھی فکر کرلو۔ یہی لوگ قرآن کی اصطلاح میں متقی ہیں۔ جو لوگ ان معنوں میں متقی نہیں قرآن کا کوئی مطالبہ ان پر موثر نہیں ہوتا۔
یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سورہ بقرۃ میں چونکہ شریعت دی جارہی ہے اس مقام پر بھی اور آگے اس سورت میں بے گنتی مقامات پر اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہدایت تو الله تعالیٰ ہی دیتے ہیں، مگر اس سے فائدہ صرف تقویٰ کی نفسیات میں جینے والے لوگ اٹھاتے ہیں۔ خوف خدا اور فکر آخرت پر مبنی تقویٰ کی اس نفسیات سے یہود بھی فارغ تھے اور الا ماشاء الله آج کے مسلمان بھی فارغ ہیں۔
۲۔ غیب میں رہ کر ایمان لانا
آج کے نسلی مسلمانوں کو شائد اس قرآنی مطالبے کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو مگر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں ایمان لانے والوں کی یہ اہم ترین خصوصیت تھی۔ آپ کے ابتدائی مخاطبین آپ کی دعوت کے ثبوت کے لیے حسی معجزات طلب کرتے تھے۔ وہ فرشتوں کے نزول اور آسمانی نشانیوں کے ظہور کا مطالبہ کرتے تھے۔ قرآن نے یہ اصول بیان کردیا کہ معجزات صرف نبیوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اورحضور آخری نبی ہیں۔ اس لیے آپ کے معاصرین کو کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی کسی معجزے کی فرمائش نہ کرسکیں۔ جو معجزہ پہلے لوگوں کے لیے حجت تھا یعنی قرآن وہی بعد میں آنے والوں کے لیے بھی ہوگا۔
اس پس منظر میں غیب میں رہ کر ایمان لانے کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایمان عقلی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ قدیم انسان ہوا کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر اس کے آثار محسوس کرکے اسے مانتا تھا۔ آج کا انسان زمین کی قوت کشش کو دیکھ نہیں سکتا مگر سائنسدانوں کی تحقیق کی بنیاد پر وہ مانتا ہے کہ زمین کی ایک قوت کشش ہے۔ اسی طرح دین کا ہر ایمانی مطالبہ، جس میں انسان کو غیبی حقائق یعنی خدا، فرشتوں اور جنت و جہنم کو مان لینے کی دعوت دی جاتی ہے، قرآن عقلی بنیادوں ہی پر ثابت کرتا ہے۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد جو شخص بھی قرآن پڑھے گا وہ جان لے گا کہ کیوں الله تعالیٰ پورے قرآن میں ایمانیات پر عقلی دلائل دیتے رہتے ہیں۔ کیوں وہ مظاہرِ فطرت اور تاریخی آثار کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو شخص اس پہلو سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ کبھی قرآن سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔
۳۔ نماز کا قائم کرنا
نماز دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ یہ عام حالات میں سب سے بڑا عمل ہے، جو بندہ اپنے رب کے لیے کرسکتا ہے۔ یہ قیام، رکوع، سجود کی شکل میں عبادتِ رب اور اظہار بندگی کا خوبصورت ترین نمونہ ہے۔ جو شخص رب کی پرستش، اس کی یاد اور اس کی محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح سے منہ موڑتا ہے وہ حدیث کے الفاظ میں گویا کہ کفر کا ارتکاب کردیتا ہے۔ یہاں نماز کے قیام کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ یہود نے اپنی نمازوں کو ضائع کردیا تھا۔ ختم نبوت کی بنا پر الله تعالیٰ نے یہ اہتمام تو فرما دیا کہ نماز کی شکل آج بھی الحمدللہ امت میں پوری طرح قائم ہے لیکن نماز کی اسپرٹ جو یاد الہی ہے، اس سے اکثر نماز پڑھنے والے مسلمان بھی غفلت میں رہتے ہیں۔
۴۔ انفاق
نماز کے ساتھ دین کا دوسرا مطالبہ ہے جو قرآن جگہ جگہ دہراتا ہے۔ ان آیات میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ انفاق کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا انفاق اصل میں الله کے دیے ہوئے مال میں سے ہوتا ہے۔ وہ انفاق کرکے نہ ﷲ پر احسان کرتے ہیں نہ اس کے بندوں پر۔ بلکہ صرف اپنا بھلا کرتے ہیں۔
۵۔ بلا تعصب ایمان
ایمان کا ایک پہلو تو اوپر بیان ہوا کہ یہ غیب میں رہ کر عقلی امکانات کی بنیاد پر بعض حقائق کو مان لینے کا نام ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ان آیات میں خاص یہود کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی وہ کہتے تھے کہ ہم خدا اور نبیوں کے ماننے والے ہیں، مگر ان کتابوں کو مانتے ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔ ﷲ تعالیٰ اس کے برعکس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ تعصب جمع نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ بات ثابت ہے کہ محمد صلی ﷲ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو پھر ان پر نازل ہونے والی کتاب کو نہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بندہ مومن اپنے فرقہ اور گروہ کے حق سے دلچسپی نہیں رکھتا، بلکہ خدا کے نازل کردہ حق سے دلچسپی رکھتا ہے۔ چاہے یہ حق اپنے گروہ کی طرف سے پیش ہو یا کسی اور گروہ کے کسی شخص کی طرف سے۔
۶۔ آخرت پر یقین
آخرت پر یقین قرآن کی اصل دعوت ہے۔ وہ لوگوں کو خدا کے ابدی منصوبے سے روشناس کرانے آیا ہے۔ یعنی اصل دنیا تو آخرت کی دنیا ہے۔ یہ دنیا تو محض امتحان ہے۔ یہاں کا ملنا کھونا، ہنسنا رونا، خوشی غم، کامیابی ناکامی سب امتحان ہے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین نہ ہو وہ کبھی قرآن کی ہدایت کونہیں پاسکتا۔ شروع میں جس تقویٰ کا ذکر ہوا ہے وہ اس یقین کے بغیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے یہاں آخرت پر ایمان سے زیادہ یقین کا مطالبہ کیا گیا ہے۔