متشابہات اور فتنہ ۔ ابویحییٰ
سورہ آل عمران آیت 7 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کچھ آیات متشابہ ہیں۔ فتنہ پرور لوگ فتنہ کی تلاش میں ان متشابہ آیات کے درپے ہو کر ان کی حقیقت اور ماہیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
قرآن مجید کے سنجیدہ طالب علموں کے سامنے ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ یہ متشابہ آیات کون سی ہیں؟ اور یہ کہ کیا ان کے متعلق کوئی سوال کرنا اور ان کی شرح و وضاحت چاہنا یا کرنا کیا بالکل غلط ہے؟ اس بات کا جواب قرآن مجید نے اس آیت میں خود ہی دے دیا ہے۔ وہ یہ کہ جس قسم کے لوگوں کی یہاں مذمت ہو رہی ہے وہ ہدایت کے متلاشی نہیں بلکہ ’’زیغ قلب‘‘ یعنی دلوں کی کجی اور ٹیڑھ پن کا شکار وہ لوگ ہیں جو اپنے تعصبات کے تحت پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ انھیں قرآن کی دعوت کو اس کی محکم آیات سے نہیں سمجھنا بلکہ فتنہ کی تلاش میں کوئی ایسی بات بیان کرنا ہے جس سے ان کے کفر وانکار کو کوئی عقلی اور علمی جواز مل سکے۔
قرآن مجید کی محکم آیات تو عقل و فطرت اور مسلمہ علم کی ایسی محکم اساسات پر کھڑی ہیں کہ ان میں کوئی خرابی نکالی نہیں جاسکتی۔ مثلاً ایک اللہ کی توحید، اس کی عبادت، مخلوق کے ساتھ عدل و احسان، انبیا کی تاریخ اورانفس و آفاق کے دلائل کو بیان کرتی ہوئی آیات میں خرابی نکالنا ممکن نہیں۔ اب لے دے کے جو چیزیں بچتی ہیں وہ ایسے حقائق کا بیان ہیں جنھیں انسان اپنے حواس اور معلوم علم کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتا۔ان حقائق کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو استعمال کیا ہے جو انسان کے لیے معلوم ہیں۔
مثلاً روح کے پھونکے جانے کا عمل، وحی، خدا کی صفات کے بعض پہلو اور آخرت کی دنیا کے حقائق انسان اپنے موجودہ علم کے ساتھ پوری طرح نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ ان کو دنیا میں پائی جانے والی متشابہ یا ملتی جلتی چیزوں سے سمجھایا ہے۔ اس کی سادہ ترین مثال خود جنت ہے۔ جنت دنیا کے امتحان میں فلاح پانے والوں کا ابدی ٹھکانہ ہے۔ یہ کائنات کے قادر مطلق بادشاہ کا بنایا ہوا مقام انعام ہے۔ اس لیے اس میں موجود انعامات کا تصور بھی احاطہ ادراک سے باہر ہے۔ اسے قرآن نے جنت کا نام دیا ہے۔ جنت عربی میں باغ کو کہتے ہیں۔ مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنت بس دنیا کے باغوں جیسا ایک باغ ہے۔
جنت کا نام اختیار کرنے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ عربوں کے لیے بے آب و گیاہ صحرا میں سب سے بڑے مقام عیش کا تصور ایک باغ کا تھا۔ ویسے بھی ساری دنیا اور ہر دور کے انسان باغوں کو ایک اچھی جگہ سمجھتے آئے ہیں۔ چنانچہ اسی مشابہت کی بنا پر اس لفظ کو اٹھالیا گیا۔مگر کوئی شخص کہے کہ جنت یعنی باغ تو میرے گھر میں بھی ہے تو ظاہر ہے ایسا شخص فتنہ پیدا کرنے کے لیے یہ باتیں کرے گا۔
قرآن کے نزول کے زمانے ہی میں ایسی کئی باتیں سامنے آ گئی تھیں۔ مثلاً یہ کہ قرآن نے سورہ مدثر میں بیان کیا کہ جہنم پر انیس نگران مقرر ہیں تو کفار نے شور مچا دیا کہ صرف انیس نگران کیسے اتنے سارے اہل جہنم کو قابو کر سکتے ہیں۔ یا یہ کہ ایک طرف قرآن نے جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے اور دوسری طرف اسی میں زقوم کے درخت کو اہل جہنم کا کھانا قرار دیا ہے۔ آگ میں درخت کیسے رہ سکتا ہے؟ یا قرآن میں مچھر اور مکھی کی مثالیں کیوں ہیں؟
ایسی ہی فتنہ انگیزیاں تھیں جن کی طرف قرآن مجید نے مذکورہ بالا آیات میں توجہ دلائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق فہم قرآن کے اس عمل سے نہیں ہے جس میں دین کا ایک محقق عالم یا طالب قرآن مجید میں بیان کردہ آیات بشمول متشابہات کی شرح وضاحت کرتا ہے۔ چنانچہ اوپر جنت والی مثال کو بطور نمونہ لے لیا جائے تو مفسرین، قرآن مجید کے الفاظ کی روشنی میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے، اس کا مفہوم سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحابہ کرام کے ذہن میں جب جنت کے حوالے سے سوالات پیدا ہوئے تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ سوالات کیے۔ آپ نے ان سوالات کے جواب دیے۔ مفسرین نے جنت کی نعمتوں کی تفصیل میں قرآن مجید کے بیانات کی تفسیر میں بہت کچھ کہا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جسے سورہ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت کے تحت ممنوع قرار دیا جائے۔
بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جس چیز سے یہاں روکا گیا ہے وہ ان آیات متشابہات کی تاویل یعنی حقیقت متعین کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ مثلاً روح کیا ہے، اس کی حقیقت کو متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن جو حقائق بیان کیے گئے ہیں ان کی نوعیت تو بہرحال قرآن کے اپنے الفاظ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاً زقوم ایک درخت ہے۔ اس کی یہ نوعیت تو خود قرآن نے بیان کر دی ہے۔ اسی طرح حوروں کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ ہم اہل جنت کو ان سے بیاہ دیں گے۔ زوجیت کا یہ تعلق واضح کر دیتا ہے کہ وہ خواتین ہیں۔ قرآن کے الفاظ کی روشنی میں اس طرح کی چیزوں کی نوعیت کو بیان کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ یہ نوعیت قرآن مجید کے الفاظ سے، ان کے معنی سے، اسلوب بیان سے اور سیاق کلام سے بالکل واضح ہوجاتی ہے۔
جو چیز ممنوع ہے وہ قرآن مجید کے بیانات کو اپنی فتنہ انگیزی کا نشانہ بنانا ہے۔ اپنے ناقص علم اور محدود عقل کی روشنی میں کلام الٰہی پر اعتراض کرنا ہے۔ قرآن کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ اس کی محکم آیات کے بجائے اس کی متشابہ آیات پر کرنا ہے۔ قرآن مجید کے اپنے الفاظ کو معیار بنانے کے بجائے اپنی نکتہ آفرینی کو آخری حقیقت قرار دینا ہے۔ یہ ساری چیزیں ممنوع ہیں۔ ایک بندہ مومن سے ان چیزوں کا صدور کبھی نہیں ہوسکتا۔