اللہ اکبر ۔ ابویحییٰ
عید الاضحیٰ کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ نویں کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیرات پڑھی جاتی ہیں۔ تکبیر کا مطلب اللہ کی کبریائی کا بیان ہے۔ اسے عام طور پر اللہ اکبر کے الفاظ سے بیان کیا جاتا ہے۔
اللہ اکبر کے الفاظ وہ سب سے بڑی حقیقت ہیں جو کسی انسان کی زبان سے ادا ہوسکتے ہیں۔ یہ اتنے بڑے الفاظ ہیں کہ آسمان و زمین بھی ان کی عظمت کا تحمل نہیں کرسکتے، مگر شرط یہ ہے کہ یہ الفاظ اپنی اصل اسپرٹ کے ساتھ پڑھے جائیں۔ ان الفاظ کی اصل اسپرٹ یہ ہے کہ ایک بندہ عاجز یہ دریافت کر لے کہ یہ عظیم ترین کائنات، سورج، چاند، ستارے، شجر و حجر، چرند و پرند، ہوا پانی، دریا صحرا، خشکی و تری، بلندی و پستی، انسان و حیوان، مرد و عورت سب کا مالک ایک ہی ہے۔ اور وہی میرا بھی مالک ہے۔ میرا ہر خیر و شر، خوشی و غمی، نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میں عاجز مطلق ہوں وہ قادر مطلق ہے۔ میں کچھ بھی نہیں وہ سب کچھ ہے۔
یہی احساس اللہ اکبر ہے۔ یعنی اللہ بڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں۔ مگرجیسا کہ ایک عارف باللہ نے ٹھیک کہا ہے۔ آج اللہ اکبر کا مطلب یہ بن گیا ہے کہ اللہ بڑا ہے اور تم چھوٹے ہو۔ لوگوں نے اللہ کی عظمت کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ دوسروں کو چھوٹا سمجھا جائے۔ حالانکہ اللہ کی عظمت وہی شخص دریافت کرتا ہے جو اپنے چھوٹے ہونے کو جان لے۔ ایسا شخص دوسروں کی خامیاں دریافت کرنے اور ان کے عیوب ڈھونڈنے کے بجائے اپنی اصلاح کی طرف زیادہ متوجہ رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ اکبر سے بڑا کوئی کلمہ نہیں جو انسانی زبان ادا کرسکے۔ مگر یہ کلمہ رب کی عظمت کو دریافت کرنے اوراس کے سامنے اپنے عجز کو جاننے کا نام ہے۔ یہ زبان سے محض اللہ اکبر کے الفاظ ادا کر کے دوسروں کے عیوب ڈھونڈنے اور ان پر اسلام ٹھونسنے کا نام نہیں۔