مضامین قرآن (46) دعوت کے ردوقبول کے نتائج : آخرت کی دنیا: جنت ۔ ابو یحییٰ
دعوت کے ردوقبول کے نتائج:آخرت کی دنیا:جنت
جنت:خدا کے انعام کی جگہ
جنت قرآن مجید کی ایک اصطلاح ہے جس سے وہ مقام نعمت مراد ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے بطور انعام کررکھا ہے۔ قرآن مجید نے اس مقام نعمت کے لیے باغ کی تعبیر اختیار کی ہے جو قرآن میں بیان ہونے والے جنت کے بعض اسماء جیسے جنت ، فردوس، روضۃ وغیرہ کا لغوی مفہوم ہے۔ یہ مفہوم جنت النعیم، جنات عدن، جنت الخلد ،جنت الماویٰ وغیرہ کی ان تعبیرات سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو اسی مقصد کے لےے استعمال کی گئی ہیں۔ تاہم اس سے یہ تاثر لینا درست نہیں ہے کہ جنت صرف ایک باغ ہوگا اور کچھ نہیں۔باغ کی تعبیر غالباً ایک تو عرب کے صحرائی پس منظر میں استعمال ہوئی ہے جہاں سب سے عمدہ رہائش وہی تصور کی جاسکتی تھی جو کسی باغ میں ہو اور جہاں پانی بہتا ہو۔ کیونکہ یہی وہ چیزیں تھیں جو قرآن کے ابتدائی مخاطبین عرب کے صحرا نشینوں کے لیے نعمت و انعام کا سب سے بڑا استعارہ ہوسکتی تھیں۔ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہرجگہ کے انسان کے لیے بہرحال باغ کسی بھی دوسری جگہ کے مقابلے میں بہرحال ایک خوشگوار مقام ہے اور پوری انسانیت کے لیے خدا کے مقام نعمت کے طور پر اگر کوئی جامع ترین تعبیر اختیار کی جائے تو شاید باغ سے زیادہ بہتر تعبیر ممکن نہیں۔ تاہم قرآن مجید نے اس مقام نعمت یعنی جنت کے لیے بعض دیگر تعبیرات بھی اختیار کی ہیں جیسے دارالسلام، دارالخلد، عیشۃ راضیۃ وغیرہ۔ ان تمام تعبیرات سے جنت کی دیگر خصوصیات یعنی امن و سلامتی، ابدیت اور پسندیدہ نعمتوں والی زندگی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
خدا کی یہ جنت ان بندوں کا انعام ہے جو پچھلی دنیا میں بن دیکھے خدا پر ایمان لائے اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی۔ قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ ان اہل جنت کے دو واضح گروہ ہوں گے ۔ ایک اصحاب الیمین یا وہ لوگ جن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور دوسرے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے۔ پہلا گروہ عام نیکوکارلوگوں کا ہے اور دوسرا گروہ ان لوگوں کا جو اچھے برے ہر حال میں دوسروں سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے۔تاہم جنت کا اچھا وعدہ دونوں گروہوں ہی سے کیا گیا ہے۔
یہ جنت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے بنائی ہے، پانچ پہلوؤں سے خدا کے انعام کی جگہ ہے۔ یہ وہ پانچ پہلو ہیں جن کا جمع ہونا انسان کی خوشی و مسرت کا ضامن ہے۔یہ پہلو درج ذیل ہیں۔
عافیت و ابدیت
دنیا کے مصائب کی اگر فہرست بنائی جائے تو سب سے بڑی مصیبت موت ہے۔شیطان نے جب حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو وسوسہ انگیزی کرکے خدا کے حکم پر عمل سے روکا تھا تو اس نے ان کے سامنے ”شجرۃ الخلد” یعنی ہمیشگی کے درخت ہی کو پیش کیا تھا۔ یہ ابدیت انسان کا ہمیشہ سے سب سے بڑا خواب رہی ہے اور آج کے دن تک ہے۔ ابدی زندگی کی اسی نعمت کے بعد ہی دوسری نعمتیں اپنی کوئی حیثیت رکھتی ہیں۔اسی طرح آخرت کے مصائب موجودہ دنیا سے کہیں زیادہ اور کہیں شدید ہیں،مگر وہاں یہ تمام مصائب ایک ہی جگہ جمع کردیے جائیں گے اور اس جگہ کا نام جہنم ہے۔
جنت میں داخلہ ہر دوسری چیز سے پہلے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انسان موت اور جہنم سے نجات پاکر ابدیت اور عافیت کی دنیا میں داخل ہوچکا ہے۔ قرآن نے جنت کو دارالسلام ، المقام الامین اور دار الخلد،دار الحیوان (حقیقی اور ابدی زندگی)قرار دے کر جنت کے امن وسلامتی اور ہمیشگی و دوام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے کہ وہاںجہنم کے تمام مصائب سے عافیت بھی ملے گی اور موت کی مصیبت سے بھی نجات مل جائے گی۔اسی طرح خالدین فیھا (وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)اور لا خوف علیھم ولاھم یحزنون(انہیں نہ کوئی خوف واندیشہ ہوگا اور نہ کوئی حزن و ملال ہوگا) کی تعبیرات بھی اسی حقیقت کابیان ہے۔
تاہم اس حوالے سے قرآن مجید نے مجمل تعبیرات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تفصیل سے بھی واضح کیا ہے کہ خدا کے نیک بندے اس روزہرشر سے بچالیے جائیں گے۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ جنت ایک قطعی اور حتمی وعدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ ہر حال میں پورا کریں گے۔جو ایک دفعہ اس میں داخل ہوجائیں گے وہ اس سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنت و جہنم دونوں کا وجود گرچہ خداکی مشیت ہی پر منحصر ہے ، لیکن اس حقیقت کے باوجود اہل ایمان کو یہ اطمینان بھی دلایا گیا ہے کہ جنت کا انعام وہ عطا ہے جو کبھی ختم نہیں کی جائے گی۔
قرآن مجید کے یہ وہ بیانات ہیں جو اس بات کو قطعی طور پر طے کردیتے ہیں کہ جنت ہر ممکنہ اندیشے، خوف و پریشانی ، غم و الم، بے چینی و اضطراب سے پاک وہ جگہ ہوگی جہاں اہل ایمان کامل اطمینان کے ساتھ ابدی زندگی گزاریں گے۔اس یقین کے ساتھ کہ جنت کبھی ختم کی جائے گی اور نہ ان کو کبھی اس سے نکلنا ہی پڑے گا۔یہ وہ پہلی اور سب سے بنیادی چیز ہے جو جنت کو مقام نعمت بنادیتی ہے۔
تسکین و طمانیت
مصائب و آلام سے خلاصی کے بعد انسان کی پہلی اور فطری طلب اس کی بنیادی ضروریات اور خواہشات کی تسکین ہے ۔ان ضروریات میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو انسان کی جسمانی، نفسیاتی اور ذوقی تسکین کرتی ہیں۔قرآن مجید ہر پہلو سے یہ یقین دلاتا ہے کہ جنت میں انسان کی تمام ضروریات کی مکمل تسکین کا بندوبست ہوگا۔ مثال کے طور پر انسان کی خوشی کے لیے ضروری ہے کہ انسان میاں بیوی کے تعلق میں زندگی گزارے۔ چنانچہ قرآن مجید جگہ جگہ ازواج مطہرہ کی تعبیر سے یہ بات واضح کرتا ہے کہ جنت میں لوگ پاکیزہ جوڑوں کی شکل میں زندگی گزاریں گے۔یہ پاکیزگی جسمانی پہلو سے بھی ہوگی کہ موجودہ دنیا کا مادی جسم طرح طرح کی جن آلائشوں کا منبع ہے ، وہاں کا انسانی وجود ان آلائشوں سے بالکل پاک ہوگا۔ یہ پاکیزگی نفسیاتی پہلو سے بھی ہوگی کہ مزاج کی آلائشیں اس پسندیدہ تعلق میں کوفت پیدا کردیتی ہیں۔مگر جنت میں لوگوں کے جسم کی طرح ان کے مزاج بھی ایسے پاکیزہ ہوں گے کہ یہ جوڑے جسمانی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں گے۔
اسی طرح انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے قریبی رشتے اس کے پاس رہیں۔ جو کچھ اسے ملا ہے ، وہ اس میں اپنے والدین،بیوی اور بچوں کو بھی شریک کرے۔چنانچہ قرآن مجید میں کئی جگہ اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ جنت میں انسان کے ان قریبی رشتوں کو اُسی کے درجے تک پہنچادیا جائے گا اور انسان کے اپنے عمل کی جزا میں کمی نہیں کی جائے گی۔ پھر زندگی کی ہر ضرورت مثلاًکھانا، پینا ، رہائش وغیرہ اس طرح دی جائیں گے کہ نہ ان کا سلسلہ کبھی ختم ہوگا اور نہ کبھی کسی چیز پر کسی قسم کی روک ٹوک ہوگی۔پھر جو کچھ ملے گا وہ انتہائی آسانی، سہولت، نفاست، خوبصورتی اور کثرت کے ساتھ دیا جائے گا۔ یہ سب چیزیں مل کر انسان کے جسمانی ، نفسیاتی اور جمالیاتی احساس کی بھرپور اور مکمل تسکین کا سبب بن جائیں گی۔
لامحدود عیش و لذت
انسان ہر مصیبت سے بچ جائے اور ہر نعمت اسے مل جائے، یہ گرچہ اپنی ذات میں بہت بڑی چیز ہے مگر انسان اسی پر بس کردینے والی مخلوق نہیںہے۔ اس کے اندر خواہشات کا ایک لامحدود سمندر ہے۔اس دنیا میں انسان لاکھ وسائل رکھتا ہو ، مگرقدم قدم پر انسانی محدودیت اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔جنت خدا کے انعام کی وہ جگہ ہے جہاں انسانی خواہشات کے راستے میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو دور کردیا جائے گا۔
قرآن نے مثال کے طور پر چند چیزوں کو لے لیا ہے جو ہر دور میں اس دنیا میں عیش و لذت کی سب بڑی علامت سمجھی گئی ہیں۔ مثلاً عورت اور شراب۔قرآن نے ان کو بطور مثال پیش کرکے بتادیا ہے کہ جو تمھارا معیار عیش و لذت ہے، جنت میں تم کو اعلیٰ ترین سطح پر دیا جائے گا اور اس میں سے ہر وہ چیز ہٹادی جائے گی جو دنیا میں تمھارے مزے کو کرکرہ کردیتی ہے۔ مثلاً شراب جو اس دنیا کا سب سے مقبول نشہ ہے، جنت میں لذت ِکامل کے ساتھ ملے گی، مگر دنیا کی طرح وہ عقل میں فتور پیدا کرے گی اور نہ جسمانی آزار ہی کا باعث بنے گی۔اسی طرح عورتوں کے متعلق یہ واضح کردیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کنواری ہی رہیں گی۔
اسی طرح دنیا میں عیش کو غارت کردینے والی چیز یکسانیت ہوتی ہے جو تھوڑے ہی عرصے میں بوریت کو جنم دیتی ہے۔ جس کے بعد اچھی سے اچھی چیز بھی اپنا مزہ کھودیتی ہے۔ قرآن نے پھلوں کی مثال دے کر یہ بات واضح کردی ہے کہ جنت کی ہر نعمت انسان کو جب ملے گی تو بظاہر وہ پرانی والی نعمت نظرآئے گی، مگر دراصل وہ ہر دفعہ تنوع اور لذت کے ایک نئے معیار سے روشناس ہوں گے جس سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔ یہ چیز جنت اور اس کی کسی نعمت کو ان کے لیے پرانا نہیں ہونے دے گی۔یوں ان کی پرعیش اور ابدی زندگی ہمیشہ ان کے لیے باعث سرور رہے گی۔
اقتدار اوربادشاہت
اوپر حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے یہ بیان ہوا ہے کہ شیطان نے انھیں ابدیت کا لالچ دیا تھا۔ جو دوسری چیز اس نے ان کے سامنے رکھی تھی وہ ختم نہ ہونے والی بادشاہی تھی۔ یہ انسان کی نفسیات کا بڑا دلچسپ بیان ہے۔ انسان کی مادی ضروریات زندگی کی بقا سے شروع ہوتی ہیں اور ختم نہ ہونے والی بادشاہت پر جاکر ختم ہوتی ہیں۔جنت انسان کی اس آخری ضرورت کے پورے کیے جانے کی بھی جگہ ہے۔قدیم صحائف میں جنت کے لیے آسمانی بادشاہی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور قرآن نے ”ملک کبیر” کہہ کر اس کی تصدیق کردی ہے کہ جنت انسان کے اسی جذبہ حکمرانی کی تسکین کی جگہ ہوگی۔
قرآن مجیدنے جنت کی نعمتوں کو جب بیان کیا ہے تو اس وقت رائج شاہی معیارات کو سامنے رکھ کر ہی ان نعمتوں کی تفصیل کی ہے۔ زمانہ قدیم کے بادشاہوں کی زندگی سونے چاندی کے برتن اور زیورات،ریشمی ملبوسات، عالیشان محلات، حسین لونڈیوں پر مشتمل حرم، مستعد غلاموں کی فوج،تخت و تاج کے جلال، درباریوں کے سلام ، عزت و وقار ،شان و شوکت اور منہ مانگی خواہشات کی تکمیل میں گزرتی تھی۔قرآن نے اُس دور میں رائج انھی معیارات کو سامنے رکھ کر اہل جنت کی نعمتوں کو بیان کرکے یہ بتادیا ہے کہ انھیں بادشاہی کے یہ سب لوازم دیے جائے گے۔یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ بادشاہی اپنی وسعت میں آسمانوں سے زمین تک پھیلی ہوگی۔ اس بادشاہی میں جو ان کا دل چاہے گا انھیں ملے گا اور جو وہ طلب کریں گے ان کے حضور پیش کیا جائے گا۔
پھر اس بادشاہی میں انسانوں کے خارج ہی میں نعمتوں کے انبار جمع نہیں ہوں گے بلکہ انسان کا ذاتی وجود اور ذاتی طاقت و صلاحیت بھی انتہائی غیر معمولی ہوچکی ہوگی۔ قرآن مجید نے بطور مثال یہ بات بیان کی ہے کہ ایک جنتی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کسی اور شخص کو جب چاہے گا دیکھ لے گا، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح قرآن میں بیان ہوا ہے کہ درختوںکے خوشے اہل ایمان کی دسترس میں ہوں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب بلند درخت اہل ایمان کی خواہش پر اپنی شاخیں ان کے لیے جھکادیں۔ا س سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت میں اہل ایمان کا اقتدار اشیا پر بھی قائم ہوچکا ہوگا۔
عبدیت و روحانیت
ان ساری مادی نعمتوں کے ساتھ انسان بہرحال ایک روحانی وجود ہے۔اس کی روحانیت کے تقاضے ا س کے مادی تقاضوں سے بالکل جدا ہیں۔ مگر قرآن مجید نے اس بات کو بھی مختلف پہلوؤں سے واضح کیا ہے کہ اہل جنت کی روحانی تسکین کا اصل مقام بھی جنت ہی ہے۔انسان کی روحانیت کا تقاضہ ہے کہ وہ انسان رہے ، نعمتوں میں رہے، مگردوسروں کے لیے دل میں کوئی بغض کوئی کینہ نہ ہو، کوئی حسد کوئی کبر نہ ہو۔اہل جنت کے دل ایسے ہی بنادیے جائیں گے۔ انسان کی روحانیت کا تقاضہ ہے کہ اس کا ماحول لغویات اور گناہوں کی ہر آلائش سے پاک ہو۔ قرآن جنت میں ایسے ہی ماحول کی یقین دہانی کراتا ہے۔انسانی کی روحانیت چاہتی ہے کہ اس کے صبح وشام فرشتوں کی صحبت میں گزریں۔جنت کی دنیا میں یہ ضرورت بھی پوری ہوگی اور خدا کے فرشتے ہر سمت سے سلام لے کر ان کے پاس آرہے ہوں گے۔
ان سب سے بڑھ کر انسان کی روحانیت کا تقاضہ ہے کہ ان کا خالق، ان کا مالک اور ان کا محبوب رب جس نے ان کو سب کچھ دیا، وہ ان سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ قرآن مجید واضح کرتا ہے کہ مجرموں کے برعکس جو آنے والی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے قرب اوراس کے انوارو تجلیات سے اوٹ میں رکھے جائیں گے(المطففین15:83)، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی نعمت خدا کی رضا کا وہ پروانہ ہوگاجو ہر حجاب اٹھاکر ان کو عطا کیا جائے گا۔چنانچہ جنت کی زندگی صرف مادی نعمتوں ہی کا نام نہیں بلکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان کی روحانیت بھی اپنی کامل تسکین پالے گی اور جہاں اہل ایمان کی زندگی ہمہ وقت خدا کی تسبیح، تعریف اور اس کی تمجید میں گزرے گی۔
جنت کے حوالے سے ایک اصولی بات
تاہم جنت کے حوالے سے اصولی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی نعمتوں کی جو تفصیل کی گئی ہے وہ ایک دوسرے عالم کی روداد ہے جس کی اصل حقیقت اپنے وقت ہی پرسامنے آئے گی۔ اس دنیا میں اور خاص کر نزول قرآن کے وقت لوگوں کے ذہن میں نعمت و بھلائی کا جو ممکنہ تصور تھا، قرآن مجید نے اسی کو سامنے رکھ کر جنت کا نقشہ بیان کیا ہے۔ایسا نہیں ہوگا کہ جنت بس انھی نعمتوں کا نام ہے جن کا ذکر قرآن میں آگیا ہے۔ خود قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح کردیا ہے کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ اہل جنت کے اعمال کے صلے میں ان کے رب نے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے لیے چھپاکر رکھا ہے ، )السجدہ17:32)۔ اس آیت سے واضح ہے کہ اس دنیا میں رہ کر اُس دنیا کی نعمتوں کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جو خوش نصیب اِس دنیا میں رہ کر قرآن مجید کے مطالبات کو پورا کریں گے، کل قیامت کے دن وہی جان سکیں گے کہ جنت کی حقیقت کیا ہے۔
الحمدللہ یہاں قرآن مجید کی دعوت اور دلائل کا سلسلہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، انشاء اللہ العزیز اب ہم قرآن مجید کے مطالبات کی تفصیل کرنا شروع کریں گے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
قرآنی بیانات
”رہے سابقون ، تو وہ تو سبقت کرنے والے ہی ہیں! وہی لوگ مقرب ہوں گے۔ نعمت کے باغوں میں۔ ان میں بڑی تعداد اگلوں کی ہوگی اور تھوڑے پچھلوں میں سے ہوں گے۔ جڑاؤ تختوں پر، ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی خدمت میں غلمان ، جو ہمیشہ غلمان ہی رہیں گے، پیالے جگ اور شرابِ خالص کے جام لیے ہوئے گردش کر رہے ہوں گے جس سے نہ تو ان کو دردِ سر لاحق ہوگا اور نہ وہ فتورِ عقل میں مبتلا ہوں گے اور میوے ان کی پسند کے اور پرندوں کے گوشت ان کی رغبت کے ۔ اور ان کے لیے غزال چشم حوریں ہوں گی، محفوظ کیے ہوئے موتیوں کے مانند۔ صلہ ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے۔ اس میں وہ کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے۔ صرف مبارک سلامت کے چرچے ہوں گے۔
اور رہے داہنے والے تو کیا کہنے ہیں داہنے والوں کے ! بے خار بیریوں، تہ بہ تہ کیلوں اور پھیلے ہوئے سایوں میں۔ اور پانی بہایا ہوا۔ میوے فراواں، نہ کبھی منقطع ہونے والے نہ کبھی ممنوع۔ اور اونچے بستر ہوں گے اور ان کی بیویاں ہوں گی جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا، پس ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں، دلربا اور ہم سنیں۔یہ نعمتیں داہنے والوں کے لیے ہوں گی۔ ان میں اگلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ ہوگا اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑا گروہ۔” (الواقعہ56:10-40)
”بے شک متقی بندے باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔ و ہ محظوظ ہو رہے ہوں گے ان نعمتوں سے جو ان کے رب نے ان کو دے رکھی ہوں گی اور اس بات سے کہ ان کے رب نے ان کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھا ۔ کھاؤ اور پیو بے غِلّ و غش اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے تھے۔ ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے صف بہ صف ، تختوں کے اوپر اور ہم ان کو بیاہ دیں گے غزال چشم حوریں۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے۔ ہر ایک اس کمائی کے بدلے میں رہن ہوگا جو اس نے کی ہوگی۔ اور ہم ان کی پسند کے میوے اور گوشت ان کو برابر دیتے رہیں گے۔ ان کے درمیان ایسی شراب کے پیالوں کے تبادلے ہو رہے ہوں گے جو لغویت اور گناہ سے پاک ہوگی اور محفوظ موتیوں کے مانند خدام ان کی خدمت میں سر گرم ہوں گے۔” (طور17-24 :52)
”اور تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کو لوٹنے والی ہے! تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے انفاق و جہاد کریں گے اور جو بعد میں انفاق و جہاد کریں گے یکساں نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہوگا جو بعد میں انفاق و جہاد کریں گے۔ اگرچہ اللہ کا وعدہ ان میں سے ہر ایک سے اچھا ہی ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔” (الحدید10 :57)
”تو اللہ نے ان کو اس دن کی آفت سے بچایا اور ان کو تازگی اور سرور سے نوازا۔ اور انھوں نے جو صبر کیا اس کے صلہ میں ان کو جنت اور ریشمیں لباس عطا فرمایا۔ ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے اس میں تختوں پر۔ نہ اس میں گرمی کے آزار سے دوچار ہوں گے نہ سردی کے۔ باغِ جنت کے سائے ان پر جھکے ہوئے اور اس کے خوشے بالکل ان کی دست رس میں ہوں گے ۔ اور ان کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے گردش میں ہوں گے شیشے چاندی کے ہوں گے۔ ان کو انھوں نے نہایت موزوں اندازوں کے ساتھ سجایا ہوگا۔
اور وہ اس میں ایک اور شراب بھی پلائے جائیں گے جس میں ملونی چشمہ ز نجبیل کی ہوگی۔یہ اس میں ایک چشمہ ہے جو سلسبیل سے موسوم ہے اور ان کی خدمت میں غِلمان گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ ایک ہی سِن پر رہیں گے۔ جب تم ان کو دیکھے گے تو ان کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو گے۔ جہاں دیکھو گے وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے۔ا ن کے اوپر سندس کا سبز اور استبرق کا لباس ہوگا اور وہ چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب ان کو پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بے شک یہ تمھارے عمل کا صلہ ہے اور تمھاری سعی مقبول ہوئی!” (الدھر11-22 :76)
”اور اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے مسابقت کرو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے،یہ پرہیز گاروں کے لیے تیار ہے۔” (آل عمران133:3)
”مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ایسے باغوں کے لیے ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور پاکیزہ مکانوں کے لیے ابد کے باغوں میں اور اللہ کی خوشنودی بھی جو سب سے بڑھ کر ہے ۔ بڑی کامیابی یہ ہے۔” (التوبہ72 :9)
”ان(نعمت کے باغوں )میںان کا ترانہ ہوگا اے اللہ تو پاک ہے۔ اور اس میں ان کی آپس کی تحیت سلام ہوگی اور ان کا آخری کلمہ الحمدللہ رب العالمین(شکر ہے اللہ رب العالمین کے لیے )ہو گا” (یونس10 :10)
”یہ اس میں کوئی لغویات نہیں سنیں گے، بس تحیت ہی تحیت ہوگی۔ اس میں صبح و شام ان کا رزق مہیا ہوگا۔” (مریم 62:19)
”ہاں ،اللہ ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیے، ایسے باغوں میںداخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائں گے اور اس میں ان کا پہناوا یکسر ریشم ہوگا اور ان کی رہنمائی پاکیزہ کلمہئ حمد کی طرف اور ان کی رہنمائی خدائے حمید کی راہ کی طرف ہوگی!! ”،(الحج23-24 :22)
”اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اس کے پاسبان ان سے کہیں گے، السلام علیکم، شاد رہو! پس اس میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ کے لیے ۔” (الزمر73:39)
”تو شیطان نے اس کو ورغلایا ، کہا کہ اے آدم، کیا میں تمھیں زندگی ئ دوام کے درخت او رایسی بادشاہی کا سراغ دوں جس پر کبھی کہنگی نہ آئے!” (طہ120 :20)
”اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں نہریں ہوں گی پانی کی جس میں ذرا بھی تغیر نہ ہوا ہوگا، اور نہریں ہوں گی دودھ کی جس کا ذائقہ تبدیل نہ ہوا ہوگا اور نہریں ہوں گی شراب کی جو پینے والوں کے لیے یکسر لذت ہوں گی اور نہریں ہوں گی صاف شفاف شہد کی اور اس میں ان کے لیے ہر قسم کے پھل بھی ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت بھی! کیا یہ لوگ جن کو یہ نعمتیںحاصل ہوں ان لوگوں کے مانند ہوں گے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جن کو اس میں گرم پانی پلایا جائے گا پس وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دے گا۔ ” (محمد15 :47)
”اس میں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تیرے رب کا وعدہ ہے جس کے ایفا کی اس پر حتمی ذمہ داری ہے۔” (الفرقان16:25)
”اور بشارت دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے اس بات کی کہ ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔ جب جب اس کے پھل ان کو کھانے کو ملیں گے تو کہیں گے، یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں عطا ہوا تھا۔ اور ملے گا اس سے ملتا جلتا اور ان کے لیے اس میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”۔(البقرہ25 :2)
”کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم بدلہ پانے والے بنیں گے! کہے گا ذراجھانک کے دیکھ تو سہی! تو وہ جھانکے گا اور اس کو جہنم کے بالکل بیچ میں دیکھے گا۔کہے گا، خدا کی قسم! تم تو مجھے تباہ ہی کر دینے والے تھے! اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی آج پکڑا ہوا ہوتا۔”
(الصافات53-57:37)
”خدا ترس بندے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ رہو ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر۔ ان کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے۔وہ آمنے سامنے بھائی بھائی کی طرح تختوں پر براجمان ہوں گے۔ اس میں نہ تو ان کو کوئی تکان لاحق ہوگی اور نہ وہ اس سے نکالے ہی جائیں گے۔”
(الحجر14:45-48)
” اور تم کو اس جنت میںہر وہ چیز ملے گی جس کو تمھارا دل چاہے گا اور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ ” (حم السجدہ31 :41)
” ان کے سامنے سونے کی طشتریاں اور سونے کے پیالے پیش کیے جائیں گے اور ان میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لیے لذت بخش ہوں گی۔ اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے ۔”
(زخرف71 :43)
”اور ان کے سینے کی ہر خلش ہم کھینچ لیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے شکر کا سزاوار ہے وہ اللہ جس نے اس چیز کی ہم کو ہدایت بخشی، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ بخشی ہوتی تو ہم تو ہدایت پانے والے نہ بنتے۔ ہمارے رب کے رسول بالکل سچی بات لے کر آئے۔ اور ان کو پیغام دیا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث ٹھہرائے گئے ہو۔”
(اعراف43 :7)
”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں سے ہٹنا نہیں چاہیں گے۔”
(الکہف107-108: 18)
”اور وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کیا۔ بے شک ہمارا رب بخشنے والا، قبول فرمانے والا ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل سے اس اقامت کے گھر میں اتارا، اس میں نہ ہمیں کوئی کلفت پہنچے گی اور نہ کبھی تکان لاحق ہوگی۔” (فاطر34-35 :35)
”ہاں بلاشبہ جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ ٹھیک طرح سے عمل کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ نہ ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔” (البقرہ112 :2)
”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے بھلے کام کیے، نماز کا اہتمام کیا ، زکوٰۃ ادا کی، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ نہ ان کے لیے کوئی اندیشہ ہوگا نہ ان کو کوئی غم لاحق ہوگا۔”، (البقرہ277 :2)