انقلاب اور تدریج ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ وہ انسانوں کو نومہینے ماں کے پیٹ اور کئی برس کے بچپنے کے بعد جوانی کے بام عروج پر پہنچاتے ہیں۔ ننھا پودا کئی برس میں بھرپور درخت بنتا ہے۔ یہ سارے حقائق بتاتے ہیں کہ خدا جیسی قادر مطلق ہستی جو ایک لمحے میں سب کچھ کرسکتی ہے، اس نے جو دنیا بنائی وہ تدریجی تبدیلی کے اصول پر چلتی ہے۔خدا کی اس دنیا میں جو انسان انقلابی تبدیلی سے مثبت نتائج کی توقع لگاتا ہے ، اس کے حصے میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا۔
مگر بدقسمتی سے ان سارے حقائق کے باوجود مسلم معاشروں میں ایک طویل عرصے سے انقلابی سوچ کے حامل مفکرین نے اپنی فکر کے بیج بوئے ہیں۔ اس فکر میں کسی حکمران کو ہر شر کا ماخذ سمجھ کر شیطان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ یقین کرلیا جاتا ہے کہ اس کے رخصت ہوتے ہی سارے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ پھر نئی حکومت گویا کہ جادو کی ایک چھڑی گھما کر سارے مسائل حل کردے گی۔
چنانچہ پورا عالم اسلام اسی سوچ کا شکار رہا ہے۔ پچھلے سو برسوں میں جتنی انقلابی تبدیلیاں عرب سے افریقہ اور ایران سے پاکستان تک عالم اسلام نے دیکھی ہیں، شاید ہی کسی اور نے دیکھی ہوں، مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں ایک تدریجی عمل سے گزر کر تبدیلی آئی۔ جس کے بعد مغرب کی امامت میدان سیاست ہی میں نہیں بلکہ علم، تہذیب، زبان، ثقافت غرض ہر پہلو سے دنیا پر قائم ہے۔ اور اب چین بھی اسی تدریجی تبدیلی کے راستے پر چل کر وہ سپر پاور بن رہا ہے جس کا مقابلہ مغرب بھی نہیں کرسکے گا۔
قطع نظر اس کے کہ کوئی حکومت یا حکمران کتنا برا ہے، انقلابی تبدیلی اپنی ذات ہی میں تبدیلی کا ایک تباہ کن طریقہ ہے۔ یہ بظاہر جتنی بھرپور اور تیز رفتار محسوس ہوتی ہے ، باعتبار نتائج وہ اتنی ہی غیر موثر اور غیر مفید ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تدریجی تبدیلی ہمیشہ بہتر اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس حقیقت کو اپنی قومی تاریخ کی چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
پہلی مثال ملک میں آنے والی فوجی حکومتوں کی ہے۔ ہمارے ہاں آنے والی ہر فوجی حکومت نے ڈنڈے کی طاقت اور سنسرشپ کے سہارے پر اپنے آغاز میں بظاہر استحکام، ترقی اور امن و امان کا تاثر دیا مگر ہر دفعہ مجموعی طور پر ملک کو ان کے انقلاب کے بدترین نتائج بھگتنے پڑے۔ ملک ٹوٹنے، دہشت گردی ، منشیات، اسلحہ کی فراہمی کے علاوہ انتہا پسندی جیسے تمام تحفے مختلف مارشل حکومتوں کی وہ عطایا ہیں جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ مگر غالبا ً اس کا سب سے بڑا نقصان پختہ سیاسی قیادت کا منظر عام پر باقی نہ رہنا تھا۔ کیونکہ ہر ڈکٹیٹر پرانی سیاسی قیادت کو رد کرکے اپنی نرسری میں اپنے منظور نظر سیاستدانوں کو پالتا تھا۔ ایسے سیاستدان قومی مفاد پر ذاتی مفاد، میرٹ پر خوشامد اور دیانت پر کرپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ اقتدار میں آبھی جائیں تو ملک کی بربادی ہی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ڈکٹیٹروں کے علاوہ عوامی قوت بھی اس انقلابی تبدیلی میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ مگر اس کے نتائج بھی ہمیشہ برے ہی نکلے ہیں۔ اس کو دو حالیہ مثالوں سے سمجھتا جاسکتا ہے۔پہلی مثال جنرل مشرف کی ہے۔جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کی معیشت بہت بہتر جگہ پر تھی۔ ڈالر مشرف صاحب کے دور میں یعنی صرف دس سال پہلے تک ساٹھ روپے کا تھا۔پھر اس کے بعد مشرف صاحب کے خلاف ایک تحریک چلی ان کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ایوان صدر میں مشرف صاحب کی جگہ زرداری صاحب آگئے۔ اور پھر سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ معاشی معاملات اور امن و امان کے حالات کس طرح خراب ہوتے چلے گئے۔ ڈالر سو روپے کا اور انسانی جان اس سے بھی زیادہ بے وقعت ہوگئی۔
دوسری مثال نواز شریف صاحب کی اقتدار سے نااہلی ہے۔اس کے نتیجے میں ملک میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اس کے معاشی نتائج 124روپے کے ڈالر کی شکل میں آج سب کے سامنے ہیں۔ یہی نواز شریف جب ایک تدریجی عمل کے ذریعے سے اقتدار میں آئے تو ملک میں امن وامان کا مسئلہ بھی بہتر ہوا اور بجلی کا بحران 2013 کی بہ نسبت بہت کم ہوگیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا واحد موقع تھا جب ایک حکومت کسی انقلاب کے بجائے تدریجی طریقے سے رخصت ہوئی اور نئی حکومت نے معمول کے مطابق اقتدار سنبھالا۔
ایک اور حالیہ مثال وہ ہے جس میں وزیر اعظم نواز شریف کے بعض وزیروں نے جنرل مشرف کو ”مرد کا بچہ” نہ ہونے کا طعنہ دیا اور آئین توڑنے کے جرم میں ان پر مقدمہ چلا کر پھانسی پر چڑھانے کا عظیم انقلابی ارادہ فرمایا۔ اس کے بعد ”مرد کے بچوں” کی طرف سے جو جواب آیا آج اس کے نتائج نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
ملک کے حالات میں پیدا ہونے والی یہ ساری بہتری یا خرابی نواز شریف، جنرل مشرف، آصف علی زرداری یا دیگر فوجی ڈکٹیٹروں کی خامیوں اور خوبیوں کی بنا پر نہیں ۔ اصل مسئلہ انقلابی اور تدریجی تبدیلی کا ہے۔ انقلابی تبدیلی جذبات کو بہت تسکین دیتی ہے۔ اس سے غصہ بھی دور ہوتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر یہ قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح نہ بھی ہو تو ہر حال میں ترقی کا عمل سست کردیتی ہے۔ جبکہ تدریجی تبدیلی ہمیشہ خیر پیدا کرتی ہے۔ گرچہ اس خیر کی رفتار کچھ ہلکی ہوتی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ یہ محکم ترقی کی اساس بن جاتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عوام جذباتی بحران سے باہر نکلیں۔ انقلابی تبدیلی کے بجائے تدریجی تبدیلی کے عمل پر یقین کریں۔ تدریجی تبدیلی کے راستے میں کچھ صبر کرنا پڑتا ہے، مگر اس کے نتائج بہت دیرپا اور مثبت ہوتے ہیں۔