خدا کے نام پر کھڑے ہونے والوں کا انجام ۔ ابو یحییٰ
جو قومیں دنیا میں خدا کے نام پر کھڑی ہوجائیں، ان کو دنیا ہی میں خدا کی طرف سے ملنے والی جزاوسزا کا زندہ نمونہ بنادیا جاتا ہے۔ اہل پاکستان اس سزاوجزا کی ایک بہترین مثال ہیں۔ جب انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ وہ اسلام کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہندوؤں اور انگریزوں کی تمام تر مساعی اور مسلمانان ہند کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود دنیا کی پانچویں اور عالم اسلام کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کی شکل میں نہ صرف وجود میں آگئی بلکہ نامساعد ترین حالات میں بھی اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
مگر اس کے بعد اسلام کا نام لے کر منافقت کو دنیا میں متعارف کرانےکے جس جرم کاارتکاب اہل پاکستان تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں، اسی تسلسل کے ساتھ ان کے جرائم کی سزا ان پر مسلط کی جارہی ہے۔
نماز، حج، عمرہ، روزہ، ڈاڑھی، ٹوپی کی دھوم میں کرپشن، رشوت، ملاوٹ، بددیانتی، خیانت کا جو نمونہ ہمارے سرکاری ملازموں اور تاجروں سے لے کر عام مزدوروں کے رویے میں نظر آتا ہے، اس کی کوئی مثال شاید دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہ کرسکے۔ اسی لیے بہترین وسائل کے باوجود اتنے بدترین معاشی حالات دنیا کی کسی قوم پر مسلط نہیں ۔
اسلام کا نام لے کر دہشت گردی، قتل وغارتگری کا ارتکاب اور اس کی علانیہ و خاموش حمایت جس طرح اہل پاکستان کے مذہبی طبقات نے کی ہے، دنیا میں اس کی کوئی دوسری مثال کم ہی ملے گی۔اسی لیے ہم پچھلے کئی عشروں سے امن و امان سے محروم کردیے گئے ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ہستی سے وابستگی کا علان کرتے ہوئے بھی فرقہ بندی اور مذہبی تعصب کا جو نمونہ ہمارے مذہبی گروہ پیش کرتے ہیں، اس کی مثال دنیا میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے ایک قوم ہوتے ہوئے تقسیم در تقسیم ہونے کی ہماری جیسی مثالیں بھی کم ہی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
ہمارے حکمران سرے محل، لندن فلیٹ اور اس طرح کے متعدد ناقابل تردید ناجائز اثاثوں کے ہوتے ہوئے جس تواتر سے اللہ اور رسول کو اپنی بے گناہی پر گواہ بناتے ہیں اور عوام جس شوق اور محبت سے ان کو ووٹ دیتے ہیں، اس کی کوئی دوسری مثال کم ہی اس دنیا میں پائی جاتی ہوگی۔ اسی لیے بدترین حکمرانی کا جو نمونہ آج پاکستان میں نظر آتا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں کم ہی پائی جاتی ہے۔
اور حال ہی میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے کہتے غیر اللہ کی چوکھٹ پر جھک جانے والے لیڈر کا دفاع کرنے کی سعادت بھی یہ قوم جس طرح حاصل کررہی ہے، اس کا کوئی دوسرا نمونہ بھی شاید ہی دنیا نے دیکھا ہو۔ اقتدار کی تلاش میں غیر اللہ کی چوکھٹ پکڑنے کادفاع کرنے والے ”آل عمران” کو سورہ آل عمران میں بیان کردہ قرآن کا یہ ضابطہ سنانا ہی کافی ہے ۔
اے اللہ! بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے یہ بادشاہی چھین لے، اور جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ تمام خیر تیرے ہی اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔، (آل عمران 3:26)
اہل پاکستان کو اب ایک اصولی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ یا تو وہ اسلام کی جان چھوڑدیں اور ترکی کی طرح سیکولر ازم کو علانیہ اختیار کرلیں۔ اس سے ان کی آخرت پر جو بھی نتائج مرتب ہوں، دنیا کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ جو جوتے انھیں پڑرہے ہیں وہ اس شدت کے ساتھ نہیں پڑیں گے۔ کیونکہ پھر دنیا میں وہ اسلام کے نمائندے بن کر نہیں کھڑے رہیں گے۔
اور اگر ہم اسلام نہیں چھوڑنا چاہتے تو خدارا وہ منافقت چھوڑدیں جس کی کچھ مثالیں اوپر گزریں اور ان گنت مثالیں مزید دی جاسکتی ہیں۔ اس ملک کے باسی اگر اپنی منافقت سے باز نہیں آئے، اور اس قیادت کے پیچھے چلتے رہے جو اسلام کا نام لے کر ہر شرک، ظلم ،انتہا پسندی اور فرقہ بندی کوسند جواز دیتی ہے توجلد یا بدیر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ پھر دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ آسمان وزمین کا مالک اپنے غداروں کو کس مقام پر پہنچادیتا ہے۔