خدا بول رہا ہے ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کی ہستی اس دنیا کی سب سے خوبصورت سچائی کا نام ہے۔ مگر انسان نے ہر دور میں اس سب سے زیادہ خوبصورت سچائی کو نظرانداز کیا ہے۔ اسے جھٹلایا ہے، اس کی توہین کی ہے۔ مگر خدا کی کریم ہستی اس ظلم عظیم کے باوجود خاموشی سے احسان کیے جا رہی ہے۔
اس ظلم عظیم کی ایک شکل خدا کی محبت، عظمت اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرنا ہے۔ کسی بت، فرشتے، انسان، پیغمبر، ولی یا مخلوق کی کسی بھی شکل کے سامنے سر جھکانا ہے۔ خدا کے احسانوں کو ان کی طرف منسوب کر کے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ مشکل میں ان سے مدد مانگنا ہے۔ خدا کی ذات، صفات اور اختیار میں کسی پہلو سے بھی ان کو شریک سمجھنا ہے۔
اس ظلم عظیم کی ایک دوسری شکل خدا کا انکار ہے۔ عالم طبعی کے اسباب و قوانین میں الجھ کر رہ جانا ہے۔ اسی دنیا کو آخری اور واحد حقیقت سمجھ لینا ہے۔ یہ گرچہ زیادہ بڑی بے وقوفی ہے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ خدا نظر نہیں آتا، انسانیت آج اسی بے وقوفی میں مبتلا ہے۔
اس ظلم عظیم کی تیسری شکل اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے پیغمبروں سے کلام کر کے انسانیت تک اپنی بات پہنچائی ہے۔ مگر انسانوں نے ہر دور میں پیغمبروں کا انکار کیا۔ آخری دفعہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کو ختم کر کے اپنا کلام براہ راست قرآن مجیدکی شکل میں انسانوں کے پاس پہنچا دیا۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے اس عظیم اہتمام کی کوئی قدر نہ کی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ خدا بول رہا ہے، مگر کوئی اسے سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں۔ خدا بول رہا ہے اور لوگ دوسری چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ خدا بول رہا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ جو خدا نے کہا وہ کافی نہیں اور ان چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول نے اہمیت نہیں دی۔
جن لوگوں نے آج خدا جیسی بے مثل ہستی کی ناقدری کی ہے، کل انھیں اس کا انجام بھگتنا ہوگا۔ خدا کو نظرانداز کرنے والوں کے لیے خدا کی بادشاہی میں ذلت کے سوا کچھ نہیں۔