آخرت کا یقین ۔ ابویحییٰ
ایمان اس یقین کا نام ہے کہ ہر انسان ایک روز دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ رب کائنات ہر شخص سے زندگی کے ہر ہر قول و فعل کا حساب لے گا۔ پھر بدکاروں کا انجام جہنم ہوگا اور نیکوکاروں کی منزل جنت ٹھہرے گی۔ یہ ایمان اگر صرف مان لینے کا نام ہے تو ہر مسلمان اس کا قائل ہے۔ لیکن یہ اگر کسی ایسے یقین کا نام ہے جو زندگی کو بدل کر رکھ دے تو ایسے مسلمان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔
قرآن اسی ایمان کی دعوت دیتا اور اسی یقین کو پیدا کرتا ہے۔ اس کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ قرآن سمجھاتا ہے کہ جس منزل کی طرف وہ رہنمائی کر رہا ہے، اس کا آدھے سے زیادہ راستہ تو انسان پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان عدم تھا، خدا نے اسے وجود بخشا۔ اس کا کون انکار کرسکتا ہے؟ اب بس اتنا سا کام باقی ہے کہ جو انسان عدم سے ایک دفعہ وجود میں آچکا ہے، اسے بس دوبارہ زندہ ہی تو کرنا ہے۔
اس کی خوشخبری ہے کہ خدا کی جنت نیک لوگوں کا انعام ہوگی۔ وہ توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جنت تو خدا پہلے ہی اس جنتِ ارضی کی شکل میں بنا چکا ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں جہاں ہوا ہے نہ پانی، غذا ہے نہ سبزہ وہاں ایک کرہ ارض پر ہوا، پانی، خوراک، زندگی، موسم؛ غرض زندگی کو وجود میں لانے اور برقرار رکھنے کے سارے اسباب اسی نے اکٹھے کر دیے ہیں۔ یوں یہ جنت ارضی وجود میں آگئی۔ جنت بس اس کی ایک اعلیٰ شکل ہوگی۔ اسے بنانا کیا مشکل ہے؟
وہ جہنم کی وعید کرتا ہے۔ اور اب تو ہر شخص جانتا ہے کہ سطح زمین کے تھوڑے سے رقبے کو چھوڑ کر اس کائنات میں ہر جگہ جہنم پہلے ہی سے موجود ہے۔ دہکتے ستارے، زمین کے اندر کا لاو۱ یہ جہنم نہیں تو اور کیا ہے۔
قرآن کا یہ طرز استدلال انسان کو سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی تفکر انسان میں آخرت کا یقین پیدا کرتا ہے۔ وہ آخرت جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔