فرض کفایہ ۔ ابو یحییٰ
اہل مذہب پر ایک فریضہ عائد ہوچکا ہے۔ یہ تحریر اس فرض کفایہ کو ادا کرنے کی ایک حقیر کوشش ہے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدا کچھ بھی گوارا کرسکتا ہے، یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچایا جائے۔ کوئی داعی ہے تو سر آنکھوں پر۔ وہ اپنا اجر پائے گا۔ اگر خدا بن کر لوگوں کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرے گا تو مجرم کہلائے گا۔
پاکستان اور دنیا بھر میں پچھلے برسوں میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی اور جس میں ساٹھ ہزار سے زائد معصوم پاکستانی اور دنیا بھر میں نجانے کتنے بچے بوڑھے عورتیں اور مرد قتل کر دیے گئے، وہ اسلام کے مقدس نام پر کھیلی جا رہی ہے۔ یہ اسلام کی دعوت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ کاش اسلام کے نام پر کھڑے لوگ اس حقیقت کو جان لیں۔
کسی نے اگر کوئی نظریاتی ڈھال بنا رکھی ہے تو وہ سن لے! پروردگار عالم کو زبردستی اپنی بندگی کرانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسے اپنا دین لوگوں پر ٹھونسنا اور زبردستی مسلط کرنا ہو تو کسی نافرمان کو ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہیں مل سکتا۔ مگر اس نے یہ دنیا آزادی کے اصول پر بنائی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اس نے علماء کو انذار کا منصب سونپا ہے۔ ان کا کام سماج کو دعوت دینا اور ان کے سوالوں کے جواب دینا ہے۔ ان کو خدا کی پکڑ سے ڈرانا ہے۔ وہ اگر خود دوسروں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے اور دوسروں کے بارے میں فیصلے دینے لگیں گے تو یہ خدائی کا دعویٰ کرنے کے برابر ہوگا۔ یہ بدترین جرم ہے۔
اسلام اللہ پروردگار عالم کا دین ہے۔ وہی پروردگار عالم جس کی پکڑ بہت سخت اور جس کا عذاب ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ وہ اتنا بے خبر نہیں جتنا یار لوگوں نے اسے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی تقویم کا ایک دن، ہزار برس کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا تو لمحہ بھی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ لوگ سن لیں! مجرموں کی مہلت اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
اسلام کے مقدس نام پر اپنے تعصبات کی جنگ لڑنے والے سن لیں! بے گناہوں کو قتل کرنے والے، قاتلوں کو اگر اور مگر کی ڈھال فراہم کرنے والے، نکتہ آفرینیاں کر کے مجرموں کا تحفظ کرنے والے جان لیں! وہ صرف انسان ہی کے نہیں اسلام کی دعوت کے بھی قاتل ہیں۔ ختم نبوت کے بعد خدا کچھ بھی گوارا کرسکتا ہے۔ یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچایا جائے۔ جو یہ کرنے کی کوشش کرے گا، پروردگار عالم دنیا میں بھی اسے عبرت کا نشان بنا دے گا اور آخرت میں بھی ختم نہ ہونے والے عذاب سے دوچار کرے گا۔
توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ہے۔ جو لوٹے گا وہ اپنے آقا کو غفور و رحیم پائے گا۔ مگر جو سرکشی پر آمادہ رہے گا اسے یہودیوں کے انجام کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہم سب کو بھی یاد ر رہنا چاہیے کہ جو مسلمان خاموش رہتے ہیں، انھیں آخر کار بخت نصر، ٹائٹس رومی، چنگیز خان اور ہلاکو خان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اپنی جان کے خوف سے غیر جانبدار رہنے والے جان لیں، خدا کی جنگ میں کوئی غیر جانبداری نہیں ہوتی۔ وہ بھی پکڑ کی زد میں آئیں گے۔ اور جب آئیں گے تو ان کے بچے ذبح کر دیے جائیں گے اور ان کی عورتوں کی عصمت سربازار لوٹی جائے گی۔ خاموش رہنے والو! اُس روز خدا کے نام کی دہائی مت دینا! آج جواب دو تو بچا لیے جاؤ گے۔ خاموش رہو گے تو اُس روز تمھاری چیخیں آسمان کی بلندی تک جا پہنچیں گی، مگر آسمان سے کوئی جواب نہ آئے گا۔ اٹھو کہ ابھی وقت ہے۔ جاگو کہ ابھی بھی موقع ہے۔
اسلام دعوت ہے۔ یہ ہدایت ہے۔ یہ رحمت ہے۔ اس کے والی رحمت للعالمین تھے۔ وہ داروغہ نہیں تھے۔ سزا اور جزا دینا خدا کا حق ہے۔ وہ ایک دن سزا وجزا برپا کر کے رہے گا۔ یہی ان کا پیغام تھا۔ انھی کی پیروی میں دنیا کی فلاح ہے۔ انھی کی پیروی میں آخرت کی نجات ہے۔