عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ رمضان کے ایک ماہ کے روزے چاہے وہ گرمیوں کے سخت، طویل اور مشکل روزے ہوں رکھ لیتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے کچھ روزے سفر، مرض یا مخصوص ایام کی وجہ سے چھوٹ جائیں، ان کے لیے یہ روزے رکھنا ماہ رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ سہولت دی گئی ہے کہ لوگ یہ روزے بعد کے دنوں میں اپنی مرضی، آسانی اور حالات کے لحاظ سے رکھ سکتے ہیں۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ رمضان میں لوگ اپنی قوت ارادی کو استعمال کرتے ہیں اور روزہ رکھ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس قضا روزوں میں لوگ اس قوت ارادی کو استعمال نہیں کرتے۔ یوں یہ روزے موخر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بمشکل تمام سال گزرنے کے قریب اپنے قضا روزے پورے کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے کئی برس کے روزے جمع ہوجاتے ہیں جنھیں پورا کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قوت ارادی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ہمارے روزے ہمیں اپنے اندر موجود قوت ارادی کی اس غیر معمولی طاقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ روزے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم چاہیں تو موسم کی سختی، بھوک پیاس اور دیگر لذات سے محروم رہ کر بھی بندگی کے تقاضے نبھا سکتے ہیں۔ چاہے نماز کی پابندی ہو یا سکون سے نماز ادا کرنا ہو، چاہے بے حیائی کے کاموں سے دور رہنا ہو یا پیسے اور وقت کے زیاں سے بچنا ہو۔ ہر چیز قوت ارادی پر منحصر ہے۔
مگر جب ہم اس قوت ارادی کو استعمال نہیں کرتے تو روزہ رکھنا تو دور کی بات ہے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے امور کی انجام دہی بھی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جب ہم روزہ رکھیں تو یاد رکھیں کہ ہم اپنی سب سے بڑی قوت کو دریافت کر رہے ہیں۔ یہی قوت ہمیں ناقابل شکست بناتی ہے۔