جدل کی نفسیات ۔ ابویحییٰ
قرآن کریم میں انسانوں کی ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ انسان بہت جھگڑالو واقع ہوا ہے، (بنی اسرائیل:54)۔ سیاق کلام سے یہ بات واضح ہے کہ یہاں کفار زیر بحث ہیں جو کوئی بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ انھیں ہدایت اور صحیح بات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے وہ ہدایت کی بات سن کر اسے ہنسی مذاق یا بحث مباحثے کا موضوع بنا لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ انسانوں کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ کوئی بات اگر ان کے تعصبات کے خلاف ہو تو وہ کسی پہلو سے بھی اس پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ سمجھانے والا دس پہلوؤں سے بات سمجھائے مگر ہر پہلو کے جواب میں نت نئے نکتے نکال کر بات کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔ مثلاً آج کے کسی مسلمان کو جو غیر اللہ سے مدد مانگنے کو درست سمجھتا ہو آپ اس کے نقطہ نظر کے خلاف قرآن کی کچھ آیات سنائیں تو وہ جواب میں کہے گا کہ کیا تم اپنے ابا سے مشکل میں مدد نہیں مانگتے یا اپنے باس سے تنخواہ نہیں مانگتے۔ اسی طرح کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کسی مسلمان کو کافر یا دشمنوں کا ایجنٹ ثابت کر کے قتل کرنا جائز ہے۔ انھیں جان کی حرمت پر قرآن و حدیث کتنا ہی سنایا جائے وہ جواب میں ایک غیر متعلق واقعہ سنا دیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان لایعنی اور غیر متعلق باتوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ یہ طے کرچکے ہوتے ہیں کہ انھوں نے سنجیدگی سے کوئی بات سننی ہی نہیں۔ بات کو سنتے وقت ان کا ذہن جواب سوچ رہا ہوتا ہے۔ دلیل کو سمجھنے اور اس کی اہمیت کو ماننے کی بجائے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ایک بے معنی جملہ بولنا کافی سمجھتے ہیں۔ یہ جدل باطل ہے۔ یہ حق پرستی نہیں باطل پرستی ہے۔ حق پرست انسان ہمیشہ سوچتا اور غور کرتا ہے۔ وہ دلیل کے وزن کو محسوس کر کے اعتراف کرلیتا ہے۔ جبکہ جھگڑالو انسان کبھی نکتہ آفرینی سے باز نہیں آتا۔ یہاں تک کے اللہ کی فیصلہ کن پکڑ کا وقت آجاتا ہے۔