آگ اور ہماری سیاسی لیڈرشپ ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں کراچی اور لاہور میں آگ لگنے کے دو واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ کراچی کے واقعے میں ٹمبر مارکیٹ کے باسی اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاہور کے واقعے میں 14 افراد نقدی حیات ہی گنوا بیٹھے۔
آگ کوئی دھماکہ نہیں ہوتا جو ایک لمحے میں بربادی پھیلا دے۔ آگ لگنے اور پھیلنے کے درمیان عام طور پر اتنا وقفہ ہوتا ہے کہ فائر برگیڈ بروقت پہنچ کر نقصان کو کم سے کم کر دے۔ یا شہری انتظامیہ پہلے ہی سے ایسے انتظامات کرے کہ آگ لگنے کے بعد پھیل نہ سکے اور لوگ متاثرہ جگہوں سے باآسانی باہر نکل سکیں۔ یہ فائر برگیڈ اور یہ حفاظتی انتظامات کرنا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت کی چیمپین سیاسی لیڈرشپ کا حال یہ ہے کہ اس نے برسہا برس سے ملک میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہی نہیں دیے۔ سابق چیف جسٹس نے ہر طرح کی کوششیں کر لیں، مگر وہ ناکام ہوکر اپنے گھر چلے گئے، چاروں صوبائی حکومتوں نے انتخابات کروا کر نہ دیے۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ بلدیات کا نظام اپنے من پسند افسروں کے ذریعے سے چلا کر کرپشن کے مواقع پیدا کرنا اور تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو صرف اپنے اقتدار اور ناجائز پیسے کمانے کی پروا ہے، ملک اور قوم کی نہیں۔
اس کرپٹ اور آمرانہ سوچ کا نتیجہ مسلسل ایسے سانحات کی شکل میں نکلتا رہتا ہے۔ یہی سوچ ہے جس کی بنا پر تھر میں 300 سے زائد بچے غذائی قلت اور دیگر وجوہات کی بنا پر مرچکے ہیں۔ مگر کوئی ذمہ داری قبول کرتا ہے نہ کوئی مستعفی ہوتا ہے اور نہ اموات رکتی ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی بنا پر دہشت گرد پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو مارچکے ہیں اور اس کے بعد کہیں جا کر ملک میں پہلی دفعہ اس حوالے سے کوئی پالیسی بنانے کا عمل شروع ہوا ہے۔ وہ بھی فوج اور قوم کے شدید دباؤ پر۔ یعنی پچاس ہزار سے زائد لوگوں کے مرنے کے بعد ایک بڑا سانحہ ہوا جس پر شدید عوامی ردعمل کے بعد حکمرانوں کو یہ خیال آیا ہے کہ دہشت گردی روکنے کے لیے کوئی پالیسی ہونا چاہیے۔ درحقیقت حکمران کلاس کی یہ غفلت اور بے حسی دہشت گردی سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔
یہ حکمران کلاس کسی ایک جماعت کا نام نہیں۔ اس وقت تمام اہم اور بڑی جماعتیں بشمول مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی بڑی اور ملک بھر میں اپنی اساس رکھنے والی جماعتیں اپنی اپنی جگہ اقتدار میں موجود ہیں۔ مگرسب کا رویہ ایک ہی ہے۔ کوئی بلدیاتی انتخاب کرانے کوتیار نہیں۔ یہ جمہوریت کے اس مسلمہ اصول کی خلاف ورزی ہے جس کی وجہ سے یہ اقتدار میں ہیں۔ یہ اس آئین کی پامالی ہے، جس سے وفاداری کا حلف لے کر یہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ پاکستان کی نااہل اور کرپٹ سیاسی قیادت ہے۔ یہ فوجی آمریت کو گالیاں دیتے ہیں، مگر جہاں موقع ملتا ہے معمولی سا اختیار بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ اقتدار کو کوئی ذمہ داری نہیں بلکہ لوٹ مار کرنے اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس ملک میں بڑے سے بڑا حادثہ ہوجائے، کوئی وزیر، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کبھی مستعفی نہیں ہوتا۔
لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں پہنچانے کا نام نہیں۔ ان کے احتساب کا بھی نام ہے۔ جس روز لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی، کسی ٹمبر مارکیٹ میں اور کسی انارکلی میں انسانی جان اور مال کی ایسی بربادی نہیں ہوگی۔