مضامین قرآن (15) دلائل آخرت : جوڑے کی دلیل ۔ ابو یحییٰ
دلائل آخرت : جوڑے کی دلیل
دلیلِ مقصدیت اور جوڑے کی دلیل
پچھلی قسط میں ہم نے آخرت کے اثبات میں قرآن مجید کی دلیل مقصدیت پر گفتگو کی تھی۔ مقصدیت کی دلیل کا خلاصہ یہ تھا کہ اس دنیا کی تمام فطری قوتیں اس مقصد کے لیے وقف معلوم ہوتی ہیں کہ دھرتی پر زندگی کو وجود میں لایا جائے ۔ زمین و آسمان کی ہر شے زندگی کی سب سے اعلیٰ قسم یعنی انسان کے لیے مسخر کی گئی ہے ۔ لیکن خود انسانی زندگی جن حوادث سے دوچار ہوتی ہے ، اس کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ خود زندگی اور انسان کی چند برسوں پر مشتمل اس زندگی کا کیا مقصد ہے ۔ کیا اتنی بامعنی زندگی کا اپنا کوئی مقصد نہیں؟ اس کے پیچھے کوئی حکمت اور مصلحت نہیں ؟ قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ زندگی اور موت کے اس پورے سلسلے کا مقصد انسان کی آزمائش اور امتحان ہے ۔ جلد قیامت آئے گی جو اس امتحان کے نتیجے کا دن ہو گا اور اس دن جو دنیا قائم ہو گی وہ ابدی سزا و جزا کی دنیا ہو گی۔ یہی وہ آنے والی دنیا جس کے ساتھ ملا کر موجودہ دنیا اور اس میں جیتے مرتے انسانوں کو دیکھا جائے گا تو زندگی کی مقصدیت واضح ہو گی ورنہ زندگی اپنے مقصد کی تلاش میں رہبانیت، تشکیک اور غفلت کی راہوں میں بھٹکتی پھرے گی۔
یہ بات انتہائی معقول اور فطری ہے ، مگر اس پر بنیادی اعتراض یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اِس دنیا کی بنیاد پرآنے والی دنیا کی بات کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ اس کی کیا دلیل ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے آخرت کی وہ پانچویں دلیل پھوٹتی ہے جسے قرآن مجید اپنے مخاطبین کے سامنے رکھتا ہے ۔ وہ انسانوں کی توجہ اس دنیا میں موجود چار سو پھیلی فطرت کی نشانیوں کی طرف دلا کر یہ واضح کرتا ہے کہ غور کرو اس دنیا کی ہر چیز جوڑے جوڑے کے اصول پر پیدا کی گئی ہے ۔ یہاں ہر چیز تنہا تنہا اپنا وجود رکھتی ہے ، مگر اپنا مقصد تخلیق وہ اُسی وقت پورا کرتی ہے جب اسے اس کے جوڑے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے ۔
جوڑوں کی شکل میں تخلیق کی مثالیں
اس بات کو سمجھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود انسان کا اپنا وجود اس جوڑا بندی کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مرد اورعورت کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں اگر صرف مرد ہوں یا صرف عورتیں تو نسل انسانی ایک صدی کے اندر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ مگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کرتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں نئی زندگی کی بنا پڑتی ہے ۔ کم و بیش تمام حیوانات کا یہی معاملہ ہے جو نر اور مادہ کے جوڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ نر و مادہ ملتے ہیں اور نئی زندگی وجود میں آ جاتی ہے ۔
یہ معاملہ انسان و حیوان تک محدود نہیں ۔ یہی عالم نباتات میں ہوتا ہے ۔ یہیعالم جمادات میں ہوتا ہے ۔ اسی اصول پر عالم اکبر (Macro World) قائم ہے اور اسی پر عالم اصغر(Micro World) چلتا ہے ۔ ہر چیز اسی اصول پر زندہ ہے اوراپنے مقصد حیات کی تکمیل کرتی ہے ۔ چند مثالوں سے اس بات کو سمجھتے ہیں ۔
پودوں کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں نر و مادہ کا فرق نہیں ہوتا۔ لیکن علم نباتات پر گہری نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ پودوں میں نر و مادہ کا تصور پوری طرح موجود ہے ۔ بعض اوقات یہ نراور مادہ عناصر ایک ہی درخت پر پائے جاتے ہیں اور بعض اوقات نر و مادہ پھول الگ الگ درختوں پر ہوتے ہیں ۔ پہلی قسم کو Monoecious اور دوسری کو Dioecious کہتے ہیں ۔ یہ بات ایک عام مثال سے بھی یوں سمجھتی جا سکتی ہے کہ پپیتے کا بیج اگر آپ اپنے گھرمیں لگائیں تو چھ مہینے بعد ہی وہ پھل دینے لگتا ہے ۔ مگر بعض اوقات اس پر پھل نہیں آتے ہیں ۔ اس فرق کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جس پر پھل آئیں وہ مادہ درخت ہوتا ہے اور جس پر نہیں آتے وہ نر درخت ہوتا ہے ۔
قرآن مجید اس عالم سے دن اور رات، زمین و آسمان ، چاند اور سورج ، پہاڑ اور دریا کے جوڑ وں کو اسی اصول پر پیش کر کے یہ بتاتا ہے کہ یہی خدا کا طریقہ تخلیق ہے ۔ اگر دنیا میں صرف دن کی روشنی ہو اور رات کا اندھیرا نہ ہو، زمین کی زرخیزی ہو اوربارش برساتا آسمان نہ ہو، حرارت دینے والا سورج ہو اور راتوں کو نور دینے والا چاند نہ ہو، پہاڑ کی بلندی اور ان پر جمی برف ہو مگر انھیں پانی کی شکل میں لے کر بہنے والے دریا نہ ہوں تو یہ دنیا باقی نہیں رہ سکے گی۔ ان میں سے ہر جوڑے کے دو اراکین مل کر اپنا مقصد تخلیق پورا کرتے ہیں ۔ یہ عالم اکبر ہے جبکہ آج ہم جانتے ہیں کہ عالم اصغر میں کائنات جن ایٹموں سے مل کر بنی ہے ان کے الیکٹرون پر منفی اور پروٹان پر مثبت برقی چارج ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی تخلیق کا معاملہ ہے اور یہی معاملہ اس کے کلام کا ہے ۔ قرآن مجید کے متعلق معلوم ہے کہ اس کی آیات سورتوں کی شکل میں منظم ہیں ۔ تاہم یہ تمام سورتیں جوڑا جوڑا ہیں ۔ امام فراہی اور ان کے تلامذہ نے قرآن مجید کی ہر سورت پر کام کر کے یہ بتا دیا ہے کہ یہی قرآن مجید کا عمومی طریقہ ہے کہ ہر سورت اپنے ساتھ والی سورت سے مل کر ایک جوڑا بناتی ہے اور یہ جوڑا ہی ایک مکمل پیغام واضح کرتا ہے ۔ اس کی سب سے نمایاں مثال جس کو عام لوگ بھی جانتے ہیں وہ معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ ناس ہیں ۔ تاہم قرآن مجید میں بعض سورتیں جوڑے کے بغیر ہیں ۔ جس کی ایک مثال خود سورہ فاتحہ ہے جس کا کوئی جوڑا نہیں ۔ اسی سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کائنات میں بھی بعض چیزیں استثنائی طور پرجوڑے کی شکل میں نہیں ہوتیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا عمومی طریقہ تخلیق یہی ہے ۔
جوڑوں کی شکل کی یہی تخلیق اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ یہ دنیا اگر ہے اور زبان حال سے پکار پکار کر اپنے ناتمام ہونے کا اعلان کر رہی ہے تو لازماً اس کا ایک جوڑا بھی ہونا چاہیے ۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا کا جوڑا آخرت ہے ۔ یہ دنیا عارضی اورآخرت ابدی ہے ۔ یہ دنیا امتحان کا اور آخرت سزاوجزا کامقام ہے ۔ یہ دنیا کام کرنے کی جگہ ہے اور آخرت کام کا نتیجہ دیکھنے کی جگہ ہے ۔
قرآنی بیانات
اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں اور زمین کو ہم نے بچھایا، پس کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں ! اور ہر چیز سے ہم نے پیدا کیے جوڑے تا کہ تم یاد دہانی حاصل کرو (سورۃ ذاریات 51: 49-47)
پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس(یعنی نوعِ انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں (سورۃ یسین36:36)
درج ذیل آیات کی کچھ وضاحت کی ضرورت ہے ۔ ان میں پہلے آسمان کو لیا گیا اور اس میں موجود سورج اور چاند کے جوڑے کا ذکر ہے ۔ پھرآسمان کے اس جوڑے کے اگلے جز یعنی زمین کو لے کر اس میں دریا اور پہاڑ ، دن اور رات اور پھلوں کے جوڑوں کا ذکر کیا گیا ۔ ان سب سے مقصود آخرت کا یقین پیدا کرنا بیان کیا گیا ہے ۔
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمھیں نظر آئیں۔ پھر وہ اپنے عرش پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ ان میں سے ہر ایک ایک وقت معین کے لیے گردش کرتا ہے ۔ وہی کائنات کا انتظام فرماتا ہے اور اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے تا کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ اور وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں کی دو دو قسمیں اس میں پیدا کیں ۔ وہ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے ۔ بے شک ان چیزوں کے اندر ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کریں ۔ (سورۃ الرعد 3:13-2 )
شاہد ہے آفتاب اور اس کا چڑھنا اور چاند جب اس کے پیچھے لگے اور دن جب اسے چمکا دے اور رات جب اسے ڈھانک لے اور شاہد ہے آسمان اور جیسا کچھ اس کو اٹھایا اور زمین اور جیسا کچھ اس کو بچھایا اور نفس اور جیسا کچھ اس کو سنوارا۔ پس اس کو سمجھ دی اس کی بدی اور نیکی کی۔ کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو آلودہ کیا۔ ( الشمس 91: 10-1)
شاہد ہے رات جب کہ چھاتی ہے اور دن جب کہ چمک اٹھتا ہے اور شاہد ہے نر و مادہ کی آفرینش کہ تمھاری کمائی الگ الگ ہے ۔ سو جس نے انفاق کیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا اس کو تو ہم اہل بنائیں گے راحت کی منزل کا اور جس نے بخالت کی اور بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا اس کو ہم ڈھیل دے دیں گے کٹھن منزل کے لیے ۔ (الیل 92: 10-1)
[جاری ہے ]