رحمت عالم کا مشن ۔ ابویحییٰ
تپتی دوپہر کی جھلستی دھوپ اور مسجد کے جلتے فرش سے گزر کر میں مسجد کے مرکزی ہال میں داخل ہوا تو یک لخت محسوس ہوا کہ دنیا بدل گئی ہے۔ یخ بستہ ہوا اور سرد ماحول پر مشتمل یہ ایک نئی دنیا تھی جس نے باہر کے موسم کی ہر تمازت کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔ کل تک یہی ہال تھا جہاں کے پنکھے ظہر کی نماز میں باہر سے آنے والے نمازیوں کا پسینہ جذب کرنے میں بھی ناکام رہتے تھے۔ مگر آج چاروں طرف لگے اے سی سسٹم نے کایا پلٹ دی تھی۔ آج پریشان حال نمازیوں کے بجائے پرسکون چہرے بارگاہ الٰہی میں سربسجود تھے۔
مجھے یاد آیا کہ امام صاحب نے جمعہ کی نماز میں اے سی لگوانے والوں کے لیے دعا کروائی تھی۔ سوال اس وقت بھی پیدا ہوا تھا کہ ایجاد کرنے والے ایجاد نہ کرتے تو لگوانے والے اے سی کیسے لگواتے۔ ان کے لیے دعا کیوں نہ ہوئی۔ انھیں دینے کے لیے تو ہمارے پاس ہدایت کا تحفہ ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نجات ہے۔ مگر سرکار کا پیغام پہنچانے کے لیے ان جیسا دل بھی چاہیے۔ شکایت سے بلند، محبت سے لبریز، سراپا دعا، سراپا کرم۔
آہ! مگر ایسا دل میں کن لوگوں میں ڈھونڈوں۔ چلیے دل نہ سہی دعا سہی۔ پوری نماز میں میرے دل سے ان لوگوں کے لیے دعا نکلتی رہی جنھوں نے انسانیت کو موسم کی شدت سے نجات دی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دعا سنی جائے گی۔ نفرت کے پجاریوں کا دور ختم ہوگا اور ختم نبوت کے بعد کار نبوت کا علم اٹھائے کچھ اہل محبت اٹھیں گے اور دنیا کے ہر کونے تک اسلام کی دعوت، محبت اور امن کا پیغام پہنچا دیں گے۔
اہل نفرت شیطان کے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں۔ وہ انسانیت کا دشمن ہے۔ اہل محبت نبی آخر الزماں کے مشن کی تکمیل کرہے ہیں جو رحمت عالم ہیں۔