اہل محبت اور اہل ہوس ۔ ابویحییٰ
قرآن کہتا ہے کہ ایمان والے سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کو بھول کر اپنی ذات کی محبت میں گم، مال و دولت کے طلبگار، حب جاہ سے سرشار، قومی تعصبات میں گرفتار، فرقہ واریت کے اسیر اور غیر اللہ کی محبت میں جینے والے کسی شخص کو یہ بات کبھی سمجھ نہیں آسکتی کہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کیسے کی جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ان چیزوں سے بلند ہونے کے لیے تیار ہو جائے تو اسے سمجھایا جاسکتا ہے کہ یہ محبت کیا ہوتی ہے۔
یہ محبت محفل اور تنہائی ہر جگہ انسان کو اللہ ہی کی یاد دلاتی ہے۔ وہ غیر اللہ کی یاد میں جینے والوں اور غفلت کے ماروں کو اللہ کی یاد دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اسے دیوانہ اور سودائی سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر اسے اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ دنیا اسے کیا کہتی اور کیا سمجھتی ہے۔
ایسا بندہ ہر رنگ میں خدا کا جمال، ہر ساز میں اس کی صدا، ہر نغمے میں خدا کی آواز اور ہر مہک میں عنایت الہی کا پہلو تلاش کرلیتا ہے۔ لوگ اسے طعنے دیتے ہیں کہ تم اپنی شراب طہور نہ خود پی سکتے ہو اور نہ کسی کو پلا سکتے ہو، مگر نہیں جانتے کہ وہ ہر لمحہ شراب طہور پی رہا ہوتا ہے اور کسی میں دل ہو تو اسے پلا سکتا ہے۔ لوگ اسے موت سے خوف کے طعنے دیتے ہیں، مگر وہ خدا کے لیے جیتا اور اسی آس پر جیتا ہے کہ ایک روز اسے راہ خدا میں موت آجائے۔ وہ ہر مخالفت، ہر الزام، ہر بہتان کو اللہ کے لیے جھیلتا چلا جاتا ہے، مگر اخلاق کی سطح سے گر کر کبھی کسی کو جواب نہیں دیتا کہ یہ محبت کے نام کی سب سے بڑی رسوائی ہے۔ یہ محبت اس کا دعوی نہیں، اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کا نعرہ نہیں، اس کا عمل ہوتی ہے۔ اس کی تقریر نہیں اس کی تصویر ہوتی ہے۔ اس کی صورت نہیں، اس کی سیرت ہوتی ہے۔ اس محبت کے نمونے اگر دیکھنے ہیں تو یہ سب سے بڑھ کر پیغمبروں کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔
یہ نوح ہیں، ہزار برس گزار دیے مگر قوم کفر سے باز نہ آئی۔ یہ وقت آگیا کہ بال سفید ہوگئے۔ کمر خمیدہ ہوگئی۔ نئی نسلیں ان کی دعوت کا جواب تمسخر اور استہزا سے دیتی ہیں۔ انھیں دیوانہ بڈھا کہا جاتا ہے۔ مگر بڑے صبر کے ساتھ ہر الزام اور تمسخر سہتے رہے۔
یہ ابراہیم ہیں، زندگی بھر راہ خدا میں لگا دی۔ بیوی اور بھتیجے کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ کر بڑی مرادوں سے اولاد ملی۔ اکلوتا فرزند اور کیا خوب فرزند اسماعیل، حکم ہوا۔ ذبح کر دو۔ بغیر ہچکچاہٹ کے بیٹے کو چھری کے نیچے لٹا دیا اور بیٹا بخوشی لیٹ گیا۔
یہ موسیٰ ہیں، عیش و عشرت میں پلنے والے شہزادے۔ ایک مظلوم کی مدد کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔ حکم ملا تو دنیا کی طاقتور ترین سپر پاور کے حکمران کے سامنے تن تنہا ڈٹ گئے۔ اپنی قوم نے بار بار دغا کی، مگر یہ پیکر وفا ہمیشہ وفاداری میں جیا اور اسی میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
یہ داؤد ہیں، ایسے بہادر کہ جالوت جیسا جنگجو نہ ٹک سکا اور ایسے موسیقار کہ ان کی حمدیہ مزمور پر پہاڑ اور پرندے اور کل کائنات جھوم اٹھتی۔ مگر پہلے وقت کے بادشاہ کے ستم کا شکار ہوئے اور جب خود باشاہ بن گئے تو قوم نے ان پر ہی بدکاری کا الزام لگایا اور منصب نبوت سے فارغ کر دیا۔ مگرکوئی الزام انہیں صداقت کی راہ سے باز نہ رکھ سکا۔
یہ عیسیٰ ہیں، خدا کے نام پر کھڑے پتھر دل مذہبی رہنماؤں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ اس راہ میں کبھی کسی بہتان تراش کی پروا نہیں کی اور ہر دشمن حق کو بے نقاب کر کے چھوڑا۔
اور یہ خاتم النبین ہیں۔ گالیاں، الزام، بہتان، پتھر، دشمنی، نفرت، عداوت سب جھیلا مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں آیا۔ زندگی بندگی رہی۔ اسے یاد کرتے رہے اسے یاد دلاتے رہے۔
یہ ہوتی ہے محبت اور ایسے ہوتے ہیں اہل محبت۔ اب کسی میں حوصلہ ہے تو اہل ہوس کی صفوں سے نکلے اور اہل محبت کے گروہ میں شامل ہو کہ یہی نجات والوں کا گروہ ہے۔