خلافت راشدہ کے بعد عربوں کی دو عظیم حکومتیں قائم ہوئیں۔ ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسری کا بنو عباس سے۔ بنو عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد میں سے تھے۔ عباسی خاندان نے پانچ صدیوں تک حکومت کی۔ تہذیب وتمدن، علم و حکمت، قوت واقتدار، غرض ہر اعتبار سے ان کے دور میں اسلامی سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔
عباسی خاندان کا سب سے بڑا خلیفہ ہارون الرشید تھا۔ اس کے اقتدار کی عظمت کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ دارالخلافہ بغداد میں خشک سالی ہوگئی۔ ایک روز خلیفہ اپنے محل کی چھت پر کھڑا تھا کہ ابر چھا گیا، مگر بادل برسے بغیر آگے چلا گیا۔ یہ دیکھ کر ہارون رشید نے کہا:
"اے بادل تو جہاں چاہے جا کر برس، تیری پیداوار کا خراج میرے ہی پاس آئے گا۔”
ہارون رشید اپنی ذاتی زندگی میں ایک صالح آدمی تھا۔ اس کی ایک دعا اس طرح نقل ہوئی ہے:
"یا رب انت انت و انا انا۔ انا العواد بالذنب و انت العواد بالمغفرۃ۔ فاغفرلی”
"اے میرے رب! تو تو ہے اور میں میں ہوں ۔ میں بار بار گناہ کرتا ہوں اور تو بار بار بخشنے والا ہے۔ پس مجھے بخش دے۔”
اس دنیا میں ساری بڑائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی انسان کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی دی ہوئی بھیک سے ہر آدمی پل رہا ہے۔ اس کی بخشی ہوئی پناہ میں ہر آدمی جی رہا ہے۔ یہ حقیقت اگر انسان کو یاد رہے تو خدا اس کی ہر امید اور ہر خوف کا محوربن جائے گا۔ وہ سب سے بڑھ کر اس سے محبت کرے گا اور سب سے زیادہ اسی سے ڈرے گا۔ اپنے بشری تقاضوں کی بنا پر اس انسان سے کوئی غلطی تو ہو سکتی ہے، مگر یہ غلطی کبھی سرکشی اور بے نیازی میں نہیں بدل سکتی۔
رب کی عظمت اور اس کے سامنے اپنے بے وقعت ہونے کا احساس اگر زندہ ہے تو انسان بادشاہ بن کر بھی غافل نہیں رہتا۔ یہ احساس مردہ ہوجائے تو معمولی انسان بھی خود کو فرعون سمجھتا ہے۔