قرآن کی تسلی کس کے لیے؟ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید دنیا کے لیے ابدی ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے۔ تاہم اس کتاب میں کچھ آیات ایسی ہیں جن کے متعلق ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ انھیں ابدی ہدایت کی ایک کتاب کا حصہ بنانا ضروری نہیں تھا۔ مثال کے طور پر کفار کے کفر وعناد اور ان کی بدگوئی اور بدکلامی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر و تسلی کی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید جیسی کتاب میں ان کی کیا ضرورت ہے؟
یہ تسلی قرآنی وحی کے بجائے براہ راست کلام کر کے بھی دی جاسکتی تھی۔ کسی تو تسلی دینا یا صبر کی تلقین کرنا ایک ذاتی نوعیت کا مکالمہ ہوتا ہے جسے ایک عمومی کلام کا حصہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر اس دور کے حالات کی وجہ سے یہ کر بھی دیا گیا تھا تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے کے بعد ان کی تلاوت کو منسوخ کر دیا جاتا اور انھیں حتمی طور پر قرآن مجید کا حصہ نہ بنایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اب اس نوعیت کی آیات قیامت تک قرآن مجید کی ابدی رہنمائی کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ختم نبوت کے بعد ان چیزوں میں کس کے لیے رہنما ئی ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ منصب نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے، مگر کار نبوت یعنی دعوت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ دعوت دین کا عمل قیامت تک جاری و ساری رہنا ہے۔ یہ دعوت جب بھی اپنی خالص اور بے آمیز شکل میں دی جائے گی، اس کا امکان ہے کہ مفاد و تعصبات کے مارے کچھ لوگ عناد اور بدگوئی کے اسی کردار کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے جو کفار مکہ کا خاصہ تھا۔ ایسے میں دعوت دینے والے کسی بھی شخص کے لیے سب سے بڑا سرمایہ صبر و تسلی کی یہ آیات ہیں۔ دعوت دین کا کام کرنے والے انبیا علیہم السلام کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوتے، مگر بہرحال کام انھی کا کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ آیات انھیں حوصلہ دیتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اعلیٰ ہستی کو اس راہ میں الزام و بہتان، جھوٹ و دشنام، ظلم و مخالفت کے یہ ظلم سہنے پڑے تو ان کی کیا حیثیت ہے۔ انھیں بھی بہت کم ہی سہی لیکن اس راہ کی سختیاں جھیلنی پڑیں گی۔ اور انھیں اسی طرح استقامت کے ساتھ توحید و آخرت اور ایمان و اخلاق کی وہ دعوت دیتے رہنا ہے جو انبیا کی اصل دعوت ہے۔
یہاں ایک سوال مسلمانوں کی تاریخ سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس امت میں ہر دور میں مصلحین پیدا ہوتے رہے اور اس راہ میں پیش آنے والی سختیوں کو جھیلتے رہے۔ مگر ہر دور میں ان کے مخالفین بھی مسلمان تھے اور بعض حالات میں اپنے آپ کو اصل مسلمان اور اصلاح کے لیے کھڑے ہونے والوں کو منحرفین سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر مسلمان کے طور پر ابتدائی زمانے میں اس کی ایک مثال امام اعظم امام ابوحنیفہ ہیں یا وسطی دور میں اس کی مثال امام ابن تیمیہ ہے یا دور حاضر میں اس کی ایک مثال خود ہمارے خطے میں مولانا مودودی کی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے مخالفین ان پر تنقید بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں ان کی گمراہی کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں قرآن مجید کی ایسی آیات سے تسلی حاصل کرنے کے اصل حقدار کون ہیں۔ مصلحین یا ان پر تنقید کرنے والے لوگ جو خود کو اصلی اور مخلص مسلمان سمجھتے ہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ علمی اختلاف کرتے ہوئے اخلاقی حدود کو پامال کر جائیں وہ کسی طور ان آیات کی تسلی کے حقدار نہیں۔
کسی شخص کی علمی غلطی کو اس کے اخلاص کی بنا پر بعض احادیث کے مطابق معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن کسی کے اخلاص کی بنا پر اس کے اخلاقی جرائم کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ اخلاقی جرائم اس کے اخلاص کو مشکوک بنا کر جہنم میں داخلے کا سبب بن جائیں گے۔ دین اخلاق کی دعوت دیتا ہے۔ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کر کے دین کی دعوت نہیں دی جاسکتی، ایسا کرنا مسخرہ پن ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کے دین کو تمسخر کا موضوع بنانے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔