دنیا کو مطلوب ۔ ابویحییٰ
اللہ کا مطلوب انسان کیا ہے؟ یہ انسان خدا کی محبت سے آخری درجہ میں سرشار ہوتا ہے۔ یہ اس کی حمد کے نغمے بکھیرتا اور اس کی عظمت کے ترانے پڑھتا ہے۔ اسے اگر میرے آقا داؤد علیہ السلام کے لحن سے حصہ نہ ملا تو کیا ہوا، وہ اپنے دل کی دھڑکن اور آنسوں کی برسات میں خدا کی حمد کے نغمے گاتا ہے۔ چھوٹی بڑی ہر نعمت اسے اپنے مالک کی عنایت پر اس کا شکر گزار اور اسے ہر لمحہ یاد رکھنے والا بناتی ہے۔
اللہ کا مطلوب انسان کیا ہے؟ یہ انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کو زندگی کا نصب العین بناتا ہے۔ اسے میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطری پاکیزگی کا کوئی حصہ چاہے نہ ملا ہو، مگر اس کا آئیڈل آپ ہی کی ہستی ہوتی ہے۔ وہ ان جیسا چاہے نہ بن سکے، مگر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمدرد، نرم خو، درگزر کرنے والا، محبت کرنے والا بننا چاہتا ہے۔ عدل، احسان، انفاق اس کی زندگی کے تین بنادی اصول ہوتے ہیں۔ حیا اس کا کردار اور پاکیزگی اس کی سیرت ہوتی ہے۔ ایمان اس کی زندگی، رحم اس کی شناخت اور ہمدردی اس کی سوچ ہوتی ہے۔ دین اس کی زبان کا چٹخارہ نہیں دل کا درد ہوتا ہے۔ یہی درد جب دعوت بن کر پھوٹتا ہے تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں۔
آہ! مگر آج کا مسلمان کیا ہے۔ صبر سے خالی، منفی سوچ سے عبارت، مایوسی کی تصویر اور بے عملی کا نمونہ۔ اس کی انگلی ہمیشہ دوسروں کی طرف اٹھی ہوئی، زبا ن شعلے اگلتی، ذہن میں نفرت کا لاوہ کھولتا، نگاہیں سازشوں کی متلاشی، سینہ کدورت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے سوا ہر شخص کو گمراہ سمجھتا، فتوے لگاتا اور دوسروں پر اپنے تصورات کو آخری سچائی سمجھ کر ٹھونستا ہے۔
آج دنیا کو اللہ کے مطلوب انسان کی ضرورت ہے جو سراپا درد، پیکر دعوت، اعلیٰ سیرت، علم، حلم اور معرفت کا پیکر ہوتا ہے۔ نہ کہ آج کے مسلمان کی جو زوال یافتہ مسلم قومیت کا ایک فرد ہے۔