اکیسویں صدی کا نشہ ۔ ابویحییٰ
انسان ہر دور میں نشہ کرتے آئے ہیں۔ نشہ انسان کو وقتی طور پر مزہ یا سرور دیتا ہے اور اسے زندگی کے تلخ حقائق سے دور کردیتا ہے۔ تاہم یہ نشہ مستقل بنیادوں پر کبھی سکون نہیں دے سکتا بلکہ نشے کا عادی ہونے کے بعد لوگوں میں نشے کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس کا سرور کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب لوگ مزے کے بجائے مجبوری میں نشہ کرتے ہیں۔ اور طرح طرح کے عوارض اور مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
انسان اپنی تاریخ میں ناک اور زبان کے راستے ہی نشہ سے واقف رہے ہیں جیسے ہیروئن یا شراب وغیرہ۔ مگر اکیسویں صدی میں نشے کی ایک نئی قسم ایجاد ہوئی ہے جو آنکھوں کے راستے انسانوں کے اندر اتر جاتی ہے۔ یہ نشہ انفارمیشن ایج کے آلات سے ملنے والی تفریح کا نشہ ہے۔ ٹی وی، فلمیں، ڈرامے، کھیل، وڈیو گیم، انٹرنیٹ، فیس بک، چیٹنگ وغیرہ اس نشے کی نمایاں ترین مثالیں ہیں۔ اکیسویں صدی کا ہر فرد کم یا زیادہ اس نشے کا شکار ہے۔
لوگ اس نشے کے بھی اسی طرح عادی ہو جاتے ہیں جیسے شراب اور چرس کا نشہ ہوتا ہے۔ ان چیزوں کے بغیر ان کے شب و روز اور صبح و شام نہیں کٹتے۔ اس کے نتیجے میں بچے تعلیم سے، خواتین گھرہستی سے اور مرد ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ لوگ ایک گھر میں رہ کر ایک دوسرے سے بے خبر رہتے ہیں۔ دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملنے کا وقت نہیں رہتا۔ وقت کا زیاں، ذہنی صلاحیت کا مفلوج ہونا اور اخلاقی اقدار کی کمزوری اس کے عام نتائج ہیں۔ یہ فرد اور معاشرے دونوں کو ایسے ہی نقصان پہنچاتا ہے جیسا کوئی اور نشہ۔
مگر بدقسمتی سے کوئی اس نشے کو نشہ نہیں مانتا۔ کوئی خود کو اور اپنے بچوں کو اس نشے سے بچانے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ یہ نشہ انہیں سکون سے مستقل طور پر محروم کردیتا ہے۔