خزانے کا نقشہ ۔ ابویحییٰ
انسان کہانیوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ کہانیاں جن میں کسی پوشیدہ خزانے کا ذکر ہو۔ ان کہانیوں میں کوئی مہم جو خطرات سے کھیلتا اور مشکلات جھیلتا ہوا اس خزانے تک جا پہنچتا ہے۔ اس مہم کے دوران اس کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ ایک نقشے کا بھی ذکر ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ نامعلوم منزل تک جا پہنچتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو پوشیدہ خزانے کے حصول کی یہ کہانی انسانی فطرت کے ایک خاص پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس کی بنا پر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی ساری نعمتیں اور راحتیں حاصل کرلے۔ یہ سب کچھ مال و دولت کے بغیر نہیں مل سکتا۔ خزانے کی کہانی میں یہی مال و دولت عالم شباب میں اس مہم جو کو مل جاتا ہے جو پڑھنے والے کے لیے ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔
لیکن کہانیاں پسند کرنے والوں بلکہ درحقیقت اکثر انسانوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ خزانے کی کہانی کوئی فلم، کوئی داستان نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ زندگی کی ایک ایسی حقیقت جس میں مرکزی کردار خود ان کا اپنا ہے۔ روز ازل سے خدا ذوالجلال نے زندگی کی سچی کہانی میں انسان کو مرکزی رول کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ایک مہم جو کی طرح دنیا کے مصائب و آلام اور راحت و سکون کو نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھے اور جنت کے اس خزانے کو پالے جس کے بعد انسان ہر عیش و آرام کا حقدار اور ہر دکھ و غم سے نجات پالے گا۔
خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جنت کے پوشیدہ خزانے تک پہنچنے کا ایک نقشہ بھی عطا کیا ہے۔ یہ نقشہ پیغمبروں کی رہنمائی کے ذریعے سے انسان کو ملتا رہا ہے۔ اور آخری دفعہ یہ نقشہ قرآن پاک کی شکل میں تحریری طور پر محفوظ کرکے انسانوں کو دے دیا گیا ہے۔ اس نقشے میں علامات نہیں بلکہ الفاظ کی شکل میں بتا دیا گیا ہے کہ کون لوگ ہیں جو اس خزانے تک پہنچنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سیدھا رستہ کیا ہے، اس پر چلنے میں کیا مشکلات آتی ہیں، ان سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، اس راستے کا زادِ راہ کیا ہے، راستہ بھٹک جائیں تو کیا کرنا ہے، یہ سب اس میں تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے۔
مگر بدقسمتی سے انسان اس نقشے کو چھوڑ کر خواہش کے صحرا اور توہمات کے جنگل میں بھٹک رہے ہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ وہ عالم زیست میں ایک مہم پر بھیجے گئے ہیں۔ اس مہم میں ان کا مقصد (جبلِ زندگی) کے اس پار ایک اور دنیا میں موجود فردوس کے خزانے تک پہنچنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے اس جنگل سے وہ محتاط انداز میں گزریں۔ کیونکہ یہاں قدم قدم پر گناہ کی دلدل ہے، ابلیس کے چھوڑے ہوئے شکاری درندے اور نفسانی خواہشات کے اژدہے ہیں۔ انہیں اس جنگل سے اپنا زاد راہ تو لینا ہے، مگر اسے اپنا مسکن و مقصد نہیں بنانا۔ جس نے ایسا کیا وہ ابد تک اس جنگل میں بھٹکتا رہے گا۔
خزانے کے اس نقشے کو چھوڑ دینا ہر چند کہ تمام انسانیت کی بدقسمتی ہے، مگر سب سے بڑھ کر یہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے جن کے حوالے کرکے پیغمبر علیہ السلام دنیا سے گئے تھے۔ اس لیے کہ دوسروں کو یہ سب کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے، مگر اِنہیں تو اس بات پر یقین ہے کہ واقعتاً یہ قرآن جنت کے پوشیدہ خزانے کا نقشہ ہے۔ دنیا کے دوسرے لوگ تو کل قیامت کے دن یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ ہمارے پاس خزانے کا یہ نقشہ نہیں تھا مگر مسلمان قیامت کے دن کیا عذر پیش کریں گے؟
آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کا دیا ہوا سب سے عظیم تحفہ ان کے پاس موجود ہے، مگر انہیں توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اس کو کھول کر پڑھ لیں۔ جنہیں یہ توفیق ہوتی ہے وہ بے سوچے سمجھے اس کو پڑھتے ہیں اور ادب سے کسی بلند مقام پر رکھ دیتے ہیں۔ جو لوگ اس کے سمجھنے کے دعویدار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ بس دنیا میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کا ایک منشور ہے۔ جب مسلمانوں کا یہ حال ہو تو کسی غیر مسلم سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
آج خدا اور انسانوں سے محبت کرنے والے لوگوں کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ انسانوں کو خدا کی اس کتاب کی طرف بلائیں۔ پیغمبر علیہ السلام کی اس دعوت کی طرف بلائیں۔ اس لیے کہ ہر انسان کے پاس وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ہر مہم جو کے لیے مہلت عمل ختم ہو رہی ہے۔ اس نے اس نقشے کی مدد سے فردوس کے خزانے کو نہ پایا تو اس کا انجام جہنم کی گہری کھائی ہوگی۔ وہ کھائی جہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رونا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلانا ہوگا۔