مضامین قرآن (79) شخصی رویے : مال کے معاملے میں درست رویہ ۔ ابویحییٰ
مال کی انسانی زندگی میں اہمیت
خوراک انسان کی اہم ترین اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے انسانوں کا ہمیشہ سے انحصار جانوروں اور درختوں پر رہا۔ زرعی دور کے آغاز پر انسانوں نے جب خوراک کے حصول کو یقینی اور آسان بنانے کے لیے فصل اگانا اور مویشی پالنا شروع کر دیے تو انسانی ضروریات کا دائرہ پھیلنا شروع ہوا۔ انسانوں نے غاروں کی جگہ بستیاں بسا کر گھروں میں رہنا شروع کر دیا۔ انسان کی ذاتی اور گھریلو ضروریات کا دائرہ بڑھا تو صنعت و حرفت وجود میں آئے۔ پیداوار کے تنوع کی بنا پر خرید و فروخت کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا اور تجارت تبادلہ جنس کے بجائے سونے چاندی کی معیاری شکل کے عوض ہونے لگی۔ یہیں سے مال کا تصور وجود میں آیا جو ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ سماج قبائلی دور سے شہری دور میں داخل ہوئے تو یہ مال طاقت کے قائم مقام بھی بن گیا کیونکہ مال کی بنیاد پر مسلح لوگوں کو اپنی طاقت کے اظہار کے لیے خریدا اور رکھا جاسکتا تھا۔ یوں مال و دولت ایک ضرورت سے بڑھ کر اسٹیٹس اور طاقت کے اظہار کا بھی سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ مال کی اسی اہمیت کی بنا پر اس مال کی خواہش اور طلب میں لگنا، اس کا کمانا، اسے بچا کر رکھنا اور اسے خرچ کرکے ضروریات، سہولیات، تعیشات، اسٹیٹس اور طاقت کا حصول ہر دور میں انسان کا سب سے بڑا وظیفہ رہا ہے۔
انسان کی ہر ضرورت، سہولت، عیش و عشرت، طاقت اور اثر و رسوخ کے پیچھے مال کھڑا ہوتا ہے۔ اس مال نے انسان کے بہت سے شخصی رویوں کو جنم دیا جن کے حسن و قبح پر توجہ نہ دلائی جائے تو انسان ایک ایسی بے اعتدالی کا شکار ہوجاتا ہے جس میں وہ ایک طرف اپنی دنیا کا نقصان کرتا ہے بلکہ ان تقاضوں کو پورا کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے جو دین نے فلاح آخرت کے پہلو سے اس کے سامنے رکھے ہیں۔ انسان اپنی ذات ہی کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کے لیے بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ پس منظر ہے جس میں مال کو قرآن مجید میں حقوق رب، حقوق العباد، شریعت، اخلاقیات اور شخصی رویوں غرض ہر ہر پہلو سے زیر بحث لایا گیا ہے۔
مال کے بارے میں قرآن مجید کی تعلیم
قرآن مجید انسانوں کے امتحان کی نوعیت کو رہبانیت قرار نہیں دیتا جس میں ترک دنیا اور ترک خواہش ہی روحانیت کی معراج ہوتی ہے۔ بلکہ اس امتحان میں انسان کو دنیا کے اندر رہتے ہوئے درست رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے تاکہ آخرت کی ابدی زندگی کی فلاح پاسکے۔ اس فلاح میں مال کا بہت بڑا کردار ہے جسے خرچ کرکے انسان آخرت کے بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر انسان فقر کے خوف سے مال کو سینت سینت کر رکھتا اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے پیچھے اس مال کو لٹاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اللہ تعالیٰ کی بخشش کی طلب اور اس کے فضل کی خواہش میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے، وہی اصل دانا ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں اس مال کے عوض بلند مقام پالے گا۔ چنانچہ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مال کو خیر اور دنیا میں قیام و بقا کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ مال کمانے کا عمل اسی پس منظر میں ایک مثبت عمل ہے۔ البتہ مال کمانے کے عمل میں یہ اصول واضح کر دیا گیا ہے کہ باطل طریقے پر مال کمانا جس میں دوسرے انسانوں کی حق تلفی ہو یا ان کے ساتھ ظلم ہو، یہ جائز نہیں۔ دھوکا، فریب، ملاوٹ اور اس طرح کی دیگر چیزوں کے باطل ہونے میں انسانوں کو کوئی شبہ نہیں ہوتا لیکن سود اور جوئے جیسی چیزیں جن کے بارے میں کچھ اشکال تھا ان میں سے ہر چیز کو شریعت کا موضوع بنا کر اس کی حرمت کو قطعیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا۔
مال کمانے اور مال کے ذریعے سے دنیا کے حصول میں البتہ یہ اصول واضح کر دیا گیا کہ ”تکاثر“ یعنی بہتات کی خواہش اور ایک دوسرے سے اس معاملے میں آگے بڑھنا اور ان پر فخر کا رویہ، اسی طرح مال کی محبت میں دیوانہ ہوجانا بھی انھی لوگوں کو زیبا ہے جو خدا اور آخرت فراموشی کی زندگی جیتے ہیں۔ خدا اور آخرت کے ماننے والوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے مال پر محروم طبقات کا حق سمجھتے ہیں، اس کو ضرورت مندوں، محتاجوں، مانگنے والوں، مسافروں اور رشتہ داروں پر صبح و شام، علانیہ اور خاموشی سے خرچ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اس حد تک جاتے ہیں کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنے مال کو دوسروں کی ضرورت پر خرچ کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ مال کو خزانوں کی شکل میں جمع کرتے ہیں، اسے گن گن کر خوش ہوتے رہتے ہیں اور دوسروں کی ضرورت کے سامنے آنے کے باوجود ان پر خرچ نہیں کرتے، قرآن مجید ان کے مال کو ان کے لیے عذاب بن جانے کی وعید دیتا ہے۔
تاہم مال کو خزانوں کی طرح جمع کرنے اور ضرورت مندوں پر خرچ نہ کرنے کی اس وعید کا تعلق ان لوگوں سے نہیں ہے جو حال یا مستقبل کی اپنی ضروریات کے لیے پس انداز کرتے ہیں۔ یہ تو ایک فطری انسانی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو، البتہ، زکوٰۃ کی شکل میں اپنی بچت کا ایک حصہ لازماً ضرورت مندوں پر خرچ کرنا ہوگا۔ زکوٰۃ کا یہی قانون بچت کے علاوہ مال کی پیداوار یا آمدنی کے وقت بھی ہے کہ بندہ مومن کو اپنی پیداوار یا آمدنی کا ایک حصہ لازماً راہ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ زکوٰۃ کے اس قانونی مطالبے کے علاوہ لوگ جو کچھ اپنے اضافی مال سے خرچ کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بلندی درجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس کا اجر سات سو گنا تک دیا جائے گا۔ یہی حیثیت نصرت دین کے کاموں میں خرچ کیے گئے مال کی ہے جس کی عظمت کو قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو قرض دینے جیسے غیر معمولی اسلوب میں بیان کیا ہے۔
مال ہونے کے باوجود خرچ نہ کرنے کی دو بنیادی وجوہات بخل اور اسراف ہیں۔ قرآن مجید نے ان دونوں کی مذمت کی ہے اور ان کی شناعت پر سختی سے متنبہ کیا ہے۔ بخل و اسراف دونوں متعدی امراض ہیں جو ایک سے دوسرے میں پھیلتے ہیں۔لیکن بخیل انسان اس بخل کو دوسرے تک پھیلانے میں خود بھی حصہ لیتا ہے اور دوسروں کو بھی انفاق سے روکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مال کی شکل میں خدا کا جو فضل اس پر ہوتا ہے وہ اس کو بھی چھپا کر رکھتا ہے تاکہ کوئی ضرورت مند دست سوال دراز نہ کرسکے۔
اس معاملے میں درست جگہ کھڑے رہنے کے لیے قرآن مجید نے یہ سمجھایا ہے کہ مال خرچ کرتے وقت اعتدال و توازن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے کیونکہ اپنے ہاتھ بند رکھنے کی صورت میں انسان ادائے حقوق سے محروم رہ جاتا ہے اور کھلا چھوڑنے کی شکل میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح مال کی طمع اور حرص جس طرح فطرت انسانی میں موجود ہے اور جس کے پس منظر کی طرف شروع میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی، اس پر بھی متنبہ کر دیا گیا ہے کہ انسان اپنی تربیت نہ کرے تو یہ شخصی رویہ انسان کو ان فضائل سے محروم کر دیتا ہے جو مال سے حاصل ہوسکتے ہیں اور ان رذائل کا شکار کرسکتا ہے جو مال کے حوالے سے شریعت اور اخلاقیات کا موضوع بنائے گئے ہیں۔
قرآنی بیانات
”شیطان تمھیں تنگ دستی سے ڈراتا اور (خرچ کے لیے) بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے اور اللہ اپنی طرف سے تمھارے ساتھ مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ وہ (اپنے قانون کے مطابق) جس کو چاہتا ہے، اِس وعدے کا فہم عطا کر دیتا ہے، اور جسے یہ فہم دیا گیا، اُسے تو درحقیقت خیر کثیر کا ایک خزانہ دے دیا گیا۔ لیکن (اِس طرح کی باتوں سے) یاددہانی صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔“، (البقرہ268-269:2)
”(اِسی طرح مال کے نزاعات سے بچنے کے لیے) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرے۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر یہ حق ہے۔“،(البقرہ180:2)
”اور (یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہوں تو)ا پنے وہ اموال جن کو اللہ نے تمھارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، اِن بے سمجھوں کے حوالے نہ کرو۔ ہاں، اِن سے فراغت کے ساتھ اُن کو کھلاؤ، پہناؤ اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔“(النساء5:4)
”ایمان والو،ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الاّ یہ کہ تمھاری باہمی رضامندی کی تجارت ہو“،(النساء29:4)
”ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، سو اِن سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“،(المائدہ 90:5)
”ایمان والو، (آگے بھی خدا کی مدد چاہتے ہو تو) یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم فلاح پاؤ۔“،(آل عمران130:3)
”بہت پانے اور اُس میں دوسروں سے بڑھ جانے کی حرص نے تمھیں غفلت میں ڈالے رکھا،
یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے۔“،(التکاثر آیت 1-2: 102)
”(تم اِس خرچ سے جی نہ چراؤ اور) جان رکھو کہ دنیا کی زندگی، یعنی لہو و لعب، زیب و زینت اور مال و اولاد کے معاملے میں باہم ایک دوسرے پر فخر جتانے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو کرنے کی تمثیل اُس بارش کی ہے جس کی اگائی ہوئی فصل اِن منکروں کے دل لبھائے، پھر زور پر آئے اور تم دیکھو کہ وہ زرد ہوگئی ہے، پھر (کوئی آفت آئے اور) ریزہ ریزہ ہو جائے۔ (جان رکھو کہ) آخرت میں (اِس کے بعد) سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور اُس کی خوشنودی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی تو متاع غرور کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔“،(الحدید20:57)
”اور مال کی محبت میں متوالے ہوئے رہتے ہو۔“،(الفجر 20:89)
”جن کے مالوں میں سائل و محروم کے لیے ایک مقرر حق ہے“،(المعارج 70: 24-25)
جو لوگ شب و روز، علانیہ اور چھپا کر اپنا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور وہاں اُن کے لیے کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔“،(البقرہ: 2 274)
”……اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں ……“،(البقرہ177:2)
”ایمان والو، اِن فقیہوں اور راہبوں میں بہتیرے ایسے ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ سو اُن لوگوں کو دردناک عذاب کی خوش خبری دو جو (اِن میں سے) سونا اور چاندی ڈھیر کر رہے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اُس دن جب اُن کے اِس سونے اور چاندی پر دوزخ میں آگ دہکائی جائے گی، پھر اُن کی پیشانیاں اور اُن کے پہلو اور اُن کی پیٹھیں اُس سے داغی جائیں گی یہی ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، سو چکھو اُس کو جو تم جمع کرتے رہے ہو۔“،(التوبہ 9: 34-35)
”……یہ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا ہے۔……“،(ھمزہ2:104)
”……(ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ کا طریقہ یہی ہے۔ اِس لیے یہ نہیں مانتے تو اِنھیں چھوڑو اور تم اچھی طرح سمجھ لو کہ) اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرنے والوں کے اِس عمل کی مثال اُس دانے کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں، اِس طرح کہ ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اللہ (اپنی حکمت کے مطابق) جس کے لیے چاہتا ہے، اِسی طرح بڑھا دیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑی وسعت والا ہے، وہ ہر چیز سے واقف ہے۔“،(البقرہ261:2)
”اب کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض تاکہ وہ اُس کے لیے اُسے (جس قدر چاہے) بڑھائے اور اُس کے لیے باعزت صلہ ہو،“،(الحدید11:57)
”حرص لوگوں کی سرشت میں ہے، لیکن حسن سلوک سے پیش آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو صلہ پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔“(النساء128:4)
”اور اگر وہ اِن کو تم سے مانگ لے اور سب کچھ سمیٹ کر مانگ لے تو (معلوم ہے کہ) تم بخیلی کرو گے (اور صاف انکار کر دو گے) اور اِس سے وہ تمھارے (دلوں میں چھپے ہوئے) کینوں کو ظاہر کر دے گا۔ سنو، تم وہ لوگ ہو کہ تم کو (تمھارے مال کا کچھ حصہ) خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں ایسے بھی ہیں جو (اُس میں بھی) بخیلی کرتے ہیں۔ (یاد رکھو)، جو بخیلی کرتا ہے تو حقیقت میں اپنے ہی ساتھ بخیلی کرتا ہے۔ اللہ تو (ہر چیز سے) بے نیاز ہے اور تم اُس کے محتاج ہو۔ (تم خدا سے روگردانی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ، کرو)۔ اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تمھاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہ ہوں گے۔“، (محمد 47: 37-38)
”اُنھیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود ضرورت مند ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خودغرضی سے بچا لیے جائیں، وہی فلاح پانے والے ہیں۔“، (الحشر9:59)
”اور (اِن میں سے) جو لوگ اُن چیزوں میں بخل کرتے ہیں جو اللہ ہی نے اپنے فضل سے اُنھیں عطا فرمائی ہیں، وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ اُن کے لیے بہتر ہے۔ نہیں، یہ اُن کے حق میں بہت برا ہے۔ (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جس چیز پر اُنھوں نے بخل کیا ہے، قیامت کے دن عنقریب اُس کا طوق اُنھیں پہنایا جائے گا اور (معلوم ہونا چاہیے کہ) زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے جانتا ہے۔(آل عمران180:3)
” اِن کی پیداوار میں سے کھاؤ، جب یہ پھلیں اور اِن کا حق ادا کرو، جس دن یہ کاٹے جائیں اور بے جا نہ اڑاو۔ اللہ (اِس طرح) اڑا دینے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(الانعام141:6)
”آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آؤ، اور کھاؤ پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“،(الاعراف31:7)
”جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی اِسی کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُسے چھپاتے ہیں۔ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے ذلیل کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“(النساء37:4)
”تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔ اِس لیے کہ مال کو بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔“،(بنی اسرائیل17: 26-27)
”اور (وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اڑاتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، اُن کا خرچ اِس کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔“،(فرقان67:25)
”یہ مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے، اس کے باوجود کہ خود اس کے ضرورت مند تھے۔ (اس جذبے کے ساتھ کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں، نہ شکر گزاری کی توقع رکھتے ہیں۔“،(الدھر76: 8-9)