دین کا بنیادی اصول ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک ڈینٹسٹ سے ان کے تجربات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک بڑی دلچسپ بات یہ بتائی کہ ان کے پاس بہت سے لوگ دانتوں کی بیماریاں لے کر آتے ہیں، حالانکہ وہ ساری عمر باقاعدگی سے ٹوتھ برش کرتے رہے ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے دانتوں کو برش تو کرتے ہیں، مگر درست طریقے سے نہیں کرتے۔ وہ برش کرنے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ دانتوں پر تیزی سے برش پھیر دیا جائے۔ چند سیکنڈ برش کو دانتوں سے رگڑنے کے بعد وہ کلی کرتے ہیں، ٹوتھ پیسٹ کی خوشبو سے فریش محسوس کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دانت اور خاص کر ڈاڑھیں بالکل بھی صاف نہیں ہو پاتی۔
پھر انھوں نے برش کرنے کا درست طریقہ بتایا کہ منہ میں اوپر نیچے کے دانتوں کے سولہ حصے ہوتے ہیں۔ ہر حصے کے دانتوں کی ساخت جدا ہوتی ہے، اسی ساخت کے مطابق برش کو آگے پیچھے، دائیں بائیں یا اوپر نیچے حرکت دینا چاہیے۔ اس بات کو سمجھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اوپر اور نیچے کے دانتوں میں ڈاڑھوں کے دائیں بائیں چار حصے ہیں۔ ہر طرف کی ڈاڑھوں کی تین سطحیں ہوتی ہیں۔ ڈاڑھ کے آگے اور پیچھے کی ہموار سطح اور اوپر کی وہ نوکیلی سطح جس سے ہم نوالہ چباتے ہیں۔ یوں کل ملا کر ان بارہ جگہوں پر برش ہونا چاہیے۔
یہاں برش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آگے اور پیچھے کی سطح پر اس طرح برش کرنا چاہیے کہ جڑ سے اوپر کی طرف برش جائے تاکہ جڑوں اور ریخوں میں لگے ذرات نکل جائیں۔ جبکہ اوپر کی سطح پر برش دائیں بائیں پھیرنا چاہیے تاکہ اوپر لگے ذرات نکل جائیں۔
اس کے بعد دانتوں کا وہ اگلا حصہ ہوتا ہے جو ہنسی آنے پر نمایاں ہوجاتا ہے۔ اس میں اوپر نیچے اور آگے پیچھے ملا کر کل چار سطحیں ہیں۔ ان پر برش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لمبا برش کر کے جڑ سے کنارے تک برش پھیرا جائے۔ ہر سطح پر برش کو پندرہ سے بیس دفعہ پھیرنے سے وہ حصہ ذرات سے عام طور پر صاف ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد نہ دانتوں میں کبھی درد ہوگا، نہ کیڑا لگے گا، نہ منہ سے بدبو آئے گی اور نہ دانتوں کی پیلاہٹ کا مسئلہ ہی پیدا ہوگا۔ ہوگا تو اس کی وجہ کچھ اور ہوگی، دانتوں کی صفائی کا نہ ہونا اس کی وجہ نہیں بن سکے گا۔
ڈینٹسٹ کے اس تفصیلی تجزیے کو سن کر مجھے احساس ہوا یہ کتنا بڑا دھوکا ہوتا ہے کہ انسان بظاہر ایک کام کرتا ہے، مگر درست طریقے سے نہ کیا جائے تو وہ کام مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرتا۔ یہی معاملہ دینی احکام کا ہے۔ دینی احکام میں بنیادی اصول یہ ہے کہ جو کہا جائے وہ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ جیسے کہا جائے ویسے ہی اور اتنا ہی کام کیا جائے۔ تبدیلی یا اضافے کا مطلب خود کو دھوکا دینا ہے۔ یہ معاملہ خاص کر ایمانیات اور عبادات میں بہت اہم ہے۔
مثال کے طور پر دین میں پانچ ایمانیات دیے گئے ہیں تو ان سے آگے بڑھ کر ایمانیات کی فہرست میں اضافہ کرنا قیامت کے دن اللہ کی گرفت کا سبب بن جائے گا۔ عبادات میں نماز، زکوٰۃ و صدقہ فطر، روزہ و اعتکاف، حج و عمرہ اور قربانی کو مشروع کیا گیا ہے۔ ان سے بڑھ کر اپنی طرف سے مزید عبادات کا اضافہ کرنا یا ان عبادات کو سنت طریقے سے ہٹ کر اختیار کرنا، ایک دفعہ پھر روز قیامت جواب دہی کا سبب بنے گا۔
قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں کہ دین میں اضافہ کرنا یا تبدیلی کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے کا عمل ہے جسے قرآن مجید نے شرک اور آیات الٰہی کی تکذیب جیسے سنگین جرائم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ بہت نیک نیتی کے ساتھ دین میں اضافے اور تبدیلی کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایمانیات اور عبادات میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ یہی دین کا بنیادی اصول ہے۔