خفیہ تنظیمیں ۔ ابویحییٰ
آج کل میں ”جب زندگی شروع ہوگی“ سے شروع ہونے والے سلسلے کے آخری ناول ”ادھوری کہانی“ پر کام کر رہا ہوں۔ اس نئے ناول میں متعدد اہم موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک موضوع وہ خفیہ تنظیمیں ہیں جن کے متعلق عام طور پر اور مسلمانوں کے ہاں خاص طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے دنیا کو اپنے ایجنڈے کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر پڑھیے تو لگتا ہے کہ وہ گویا قادر مطلق ہیں جنھوں نے جو سوچا وہی حاصل کرلیا۔ استغفراللہ و لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
مسلمانوں کے ہاں ایک اور ذہن جو پیدا ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی اسی طرح تنظیمیں بنا کر اپنے ایجنڈوں کو پہلے مسلم معاشروں اور پھر دنیا پر غالب کرنا چاہیے۔ یہ سارے تصوارت پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور معرفت سے فیض یاب نہیں ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی ساری تنظیموں اور ان کے ایجنڈوں میں اگر کچھ صداقت اور جتنی کچھ بھی صداقت ہے، اس کے پیچھے خدا کا اپنا اذن کارفرما ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا کی دنیا ہے۔ اس نے انسان کو اختیار دیا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ لوگ اپنے ایجنڈے پر کام کریں، مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ انسانی ایجنڈوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیتی ہے۔ ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے اور اسی کا فیصلہ نافذ ہوکر رہتا ہے۔
آخری زمانے کے بارے میں خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ مکمل آزادی کا ایک ماحول پیدا کیا جائے۔ جس نے کفر، سرکشی اور خواہش پرستی کی راہ اختیار کرنی ہے وہ بھی کرلے اور جس نے حق پرستی و صداقت، بندگی و اطاعت اور فلاح آخرت کی راہ پر چلنا ہے، وہ بھی بہ سہولت چل سکے۔ ان تنظیموں نے پچھلے کئی سو برس میں جو جدوجہد کی ہے، اس کے نتیجے میں یہ دور آچکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور جدید نے بعض مفاسد کو جنم دیا ہے۔ انسانوں کی آزادی نے الحاد اور انکارِ خدا کو جنم دیا ہے۔ عریانی، فحاشی، ہم جنس پرستی، جنسی بے راہ روی کا وبا کی طرح پھیلنا بھی ایک بہت بڑا انسانی انحراف ہے۔ خاندانی نظام کی کمزوری اورانسانی تعلقات کا انحطاط بھی اسی دور کی عطا ہے۔ مگر ان اور ان جیسے دیگر مفاسد سے قطع نظر یہ آزادی عین وہ مطلوب چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھی۔
ایسے میں کرنے کا کام اپنی خفیہ تنظیمیں بنانا نہیں بلکہ آزادی کے اس ماحول کا فائدہ اٹھا کر اسلام کی دعوت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچا دینا ہے۔ اسلام کا یہ مزاج ہی نہیں کہ اس کے نام پر اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی خفیہ تنظیم بنائی جائے۔ اس کا مقصد ہر ہر انسان کو اس کے رب کے اس منصوبے سے آگاہ کرنا ہے جس کے تحت اس دنیا کو بنایا گیا ہے۔ یعنی ایک روز ہر انسان کو مرجانا ہے اور مرکر اسے فنا نہیں ہونا بلکہ ایک ابدی زندگی گزارنے کے لیے اپنے خالق کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس ابدی زندگی میں فلاح و انعام کی واحد شکل خدا کی بندگی اور اس کے بیان کردہ اعلیٰ اخلاق کی پیروی ہے۔ جبکہ ظلم، سرکشی، غفلت اور تکبر کا انجام جہنم ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری اس دعوت کو کل عالم تک پہنچانا ہے نہ کہ خفیہ تنظیمیں بنا کر کسی ملک یا دنیا پر اپناا قتدار قائم کرنے کی کوشش کرنا۔
یہی وہ دعوت ہے جس کے ابلاغ کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو استعمال کرکے آزادی کا ماحول پیدا کیا۔ پھر کچھ اور لوگوں کو استعمال کرکے انھوں نے انفارمیشن ایج کو جنم دیا ہے۔ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو استعمال کرکے انھوں نے دین حق کو اس کی بے آمیز شکل میں واضح کر دیا۔ اور اب وہ کچھ اور لوگوں کو استعمال کر کے دینِ حق کا ابلاغ دنیا کے ہر انسان تک کرنے جارہے ہیں۔ کوئی مرد و عورت روئے ارض پر نہیں بچے گا جس تک ایمان و اخلاق کی بے آمیز دعوت نہ پہنچے۔ پھر لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا آخری فیصلہ نافذ کر دیں گے۔ قیامت برپا کر دی جائے گی اور پھر اصل زندگی شروع ہوگی۔
اہل کتاب سیکڑوں برس تک حالت انتظار میں رہے۔ پھر ان کے کچھ لوگوں نے اس کیفیت سے نکل کر خود سراپا عمل بننے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی قوم کو بدل دیا۔ دور ِجدید کو انھی لوگوں نے جنم دیا ہے۔ مسلمان بھی عرصے سے حالت انتظار میں ہیں۔ اگر مسلمان اس کیفیت سے نکل کر سراپا ایمان و اخلاق بن جائیں اور دین حق کی شہادت دنیا کو دیں تو وہ خدا کی رحمتوں سے اپنا حصہ پائیں گے۔ دنیا پر مسلمانوں کو غلبہ اور برتری حاصل ہوگی۔ دنیا کا اقتدار ان کے قدموں میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو پھر انھی مغضوب علھیم والضالین کو استعمال کیا جائے گا اور مسلمانوں کے ساتھ وہ ہوگا جس کا آج وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
مسلمان اپنا کام کریں یا نہ کریں، مسلمانوں کو دنیا پر غلبہ حاصل ہو یا نہ ہو، البتہ ایک بات یقینی ہے۔ آزادی کے اس دور کو استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کچھ افراد کو استعمال کرتے ہوئے اپنا پیغام ہر حال میں پوری دنیا تک پہنچائیں گے۔ یہی وہ تقدیر مبرم ہے جو قیامت سے قبل پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو دعوتِ دین کے اس عمل کا حصہ بن جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن پروردگار کی بہترین نعمتوں اور رحمتوں کے سائے میں ہوں گے۔