تالے کی چابی ۔ ابویحییٰ
’’جانتے ہو اس دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور چیز کیا ہے؟‘‘ یہ سوال پوچھ کر میں نے لمحے بھر کا توقف کیا اور غور سے اس نوجوان کے چہرے کو دیکھا جو اپنے مسائل اور پریشانیوں کی داستان سنا کر خاموش ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں اور چہرے کو بدستور پژمردہ دیکھ کر میں دوبارہ گویا ہوا۔ ’’امید اس دنیا کی سب سے طاقتور چیز ہے اور حوصلہ انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یہ اگر تمھارے پاس ہے تو تم ہر کھوئی ہوئی چیز پاسکتے ہو۔‘‘
اس نوجوان کی آنکھوں میں اب سوال پیدا ہو رہا تھا۔ وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ میں نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا اور کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے تم کیا کہو گے؟ تم اپنے حالات کا دکھڑا رو گے۔ اپنے مسائل کی داستان سناؤ گے اور پھر پوچھو گے کہ ان حالات میں کیا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ میرا یہ قیاس بلاوجہ نہیں تھا۔ کیونکہ پچھلے آدھے گھنٹے سے میری ہر بات کے جواب میں وہ اسی طرح کی باتیں کر رہا تھا۔ اس لیے میرے نزدیک اب hammering کرنی ضروری تھی۔
’’سنو اور غور سے سنو! یہ ہماری نہیں خدا کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ستاروں کی وسعت سے لے کر خوردبینی خلیہ تک ہر لمحہ کھربوں زندگیاں جنم لیتی ہیں۔ وہ مردہ سے زندہ ہوجاتی ہیں۔ خدا یہ سب کچھ اپنی تخلیقی صفت کو استعمال کر کے کرتا ہے۔ اس نے تمھیں، مجھے ہر انسان کو یہ شرف بخشا ہے کہ اپنی تخلیقی صفت میں سے ایک حصہ ہم کو دیا ہے۔ اس صفت کو استعمال کر کے ہم زندگی کے ہر اندھیرے کو روشنی، شر کو خیر اور مشکل کو آسانی میں بدل سکتے ہیں۔ صرف سوچنے کا انداز تعمیری ہونا چاہیے۔ یہ تعمیری انداز امید اور حوصلہ سے جنم لیتا ہے۔ اس کے بعد انسان بڑا ہوجاتا ہے اور مسئلہ چھوٹا ہوجاتا ہے۔ انسان ذہن کی ناقابل شکست تخلیقی صلاحیت کو استعمال کر کے ہر مسئلے کا ایک حل تلاش کرلیتا ہے۔‘‘
پہلی دفعہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ جاتے وقت وہ کہنے لگا، ’’آپ نے میرا کوئی بند تالا تو نہیں کھولا، لیکن مجھے سمجھا دیا کہ ہر بند تالے کی چابی امید کی دکان سے مل سکتی ہے۔ یہی بہت ہے۔‘‘