حب الوطنی اور لیڈر پرستی ۔ ابویحییٰ
جو محب وطن ہوتا ہے وہ لیڈر پرست نہیں ہوتا اور جو لیڈر پرست ہوتا ہے وہ محب وطن نہیں رہ سکتا۔ ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جہاں عوام اپنے ملک و قوم کے وفادار ہونے کے بجائے اپنے لیڈرز کے عاشق اور اپنے نظریاتی، لسانی یا صوبائی گروہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ خود کو محب وطن بھی سمجھتے ہیں۔
کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا اگر اس کے عوام ملک کو سب سے بڑھ کر اہم نہ سمجھیں۔ کوئی قوم دنیا کی فلاح نہیں پاسکتی اگر اس کے افراد کے لیے قوم کا مفاد سب سے اہم نہ ہو۔ مگر ہمارے ملک میں اس وقت کی سیاسی صورتحال دیکھ لیجیے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہاں کوئی پی ٹی آئی کا سچا عاشق ہے، کوئی مسلم لیگ کا دیوانہ ہے اور کوئی پیپلز پارٹی کا جیالا ہے۔
اب یہ سب اپنے اپنے دائرے میں ملک کا کتنا ہی بیڑا غرق کیوں نہ کریں، وہ بندہ مرجائے گا، مگر اپنی لیڈرشپ پر تنقید برداشت نہیں کرے گا۔ اس کا کام بس یہ ہوگا کہ ہر وقت اپنی پارٹی اور لیڈر کی اندھی حمایت کرتا رہے۔ کوئی اس کی پارٹی اور لیڈر پر معقول تنقید کر دے تو وہ لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جائے گا۔ چاہے اس کے لیے گالیاں بکنی پڑیں، مذاق اڑانا پڑے، جھوٹے اعداد و شمار بیان کرنے پڑیں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا پڑے، جھوٹے پروپیگنڈے کو آنکھیں بند کرکے آگے بڑھانا پڑے، لایعنی اور باطل دلیلوں کے انبار لگانا پڑیں؛ اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
لیڈر پرستی کو اختیار کرنے والے اصل لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے کسی لیڈر سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ مگر وہ اسے ایک اصولی نقطہ نظر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی نادانی کی بنا پر پہلی قسم کے لوگوں کے جھوٹے پروپیگنڈے پر یقین کرلیتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اصلاً لیڈر پرست ہیں نہ کہ محب وطن۔