مضامین قرآن (62) حقوق العباد:والدین سے حسن سلوک ۔ ابویحییٰ
اخلاقی مطالبات کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید حقوق العباد کے ضمن میں اس بات کو بنیادی اہمیت دیتا ہے کہ انسان جن قریبی تعلقات میں اپنی زندگی گزارتا ہے، وہاں پر وہ ایک اعلیٰ انسان بن کر سامنے آئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان ایک سماجی وجود ہے۔ وہ تنہا زندگی نہیں گزارتا۔لیکن وہ اپنی زندگی سماج میں موجود ہزاروں لاکھوں لوگوں میں بھی نہیں گزارتا۔ بلکہ یہ درحقیقت چند قریبی رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں جن میں انسان کی زندگی کا بیشتر وقت گزرتا ہے۔ اس دائرے میں لوگ اگر اچھا معاملہ کرنے والے ہوں اور دوسروں کا احساس کرنے والے ہوں تو سب لوگوں کی زندگی سہل و آسان ہوجاتی ہے۔ معاشرے میں خیر پھیلتا ہے۔ لوگوں میں باہمی محبت و ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو انسانوں کو سب سے بڑھ کر جانتے ہیں اور انھوں نے ہی انسانوں کو ایک سماجی زندگی کا شعور بخشا ہے، اسی بنا پر یہ حکم دیا ہے کہ انسان جن قریبی تعلقات اور رشتوں میں زندگی گزارتا ہے وہاں وہ لوگوں سے حسن سلوک کرے۔
اس پہلو سے جب قرآن مجید کی تعلیمات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قریبی تعلقات کے تین دائرے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان میں دوسروں سے اچھا برتاؤ کریں کیونکہ انسان انھی تین دائروں میں اپنی زندگی گزارتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک
رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک
پڑوسیوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک
والدین کے ساتھ حسن سلوک
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن مجید میں نہ صرف بار بار دہرایا گیا ہے بلکہ کئی مقامات پر اسے اللہ کی بندگی کے بعد رکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ انسانوں کے حقوق میں سب سے بڑا حق والدین کا ہوتا ہے۔ والدین کی اس اہمیت کا سبب بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہ اس دنیا میں انسان جن لوگوں میں جیتا بستا ہے ان میں انسان پر سب سے زیادہ احسان اس کے والدین کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے والدین کے ان احسانات اور خاص کر ماں کے ان احسانوں کو بہت نمایاں کیا ہے جن میں مائیں تکلیف اور اذیت جھیل کر بچوں کا حمل اٹھاتی، اسی اذیت میں انھیں جنم دیتی اور پھر ان کی پرورش اور رضاعت کی بھاری اور تکلیف دہ ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ دوسری طرف باپ ایک چھایاں بن کر بچوں اور ان کی ماں کو زمانے کے ہر سرد و گرم سے بچاتا اور مشکلات کی ہر دھوپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تاہم یہ والدین جو انسان کی پیدائش بلکہ اس سے پہلے ہی سے انسان کو زندگی اور اسباب زندگی فراہم کرتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ باپ کمانا بند کر دیتا ہے۔ ماں خدمت اور کام کاج کے قابل نہیں رہتی۔ ایسے میں ماں اور باپ دونوں بوجھ بن جاتے ہیں۔ ان کے احسانات ماضی کا ایک واقعہ رہ جاتے ہیں۔ انسانوں کے لیے بیوی، شوہر اور بچے زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں انسانوں کو ماضی ویسے بھی یاد نہیں رہتا۔ چنانچہ قرآن مجید جوانوں کو یہی ماضی یاد دلاتا ہے جو انھیں بھول چکا ہوتا ہے۔
قرآن مجید والدین کی خدمات یاد دلا کرنوجوانوں کو ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ اس حسن سلوک کی متعدد جہتیں ہیں جن پر قرآن مجید نے اپنے طریقے کے مطابق براہ راست بھی تفصیلی گفتگو کی ہے اور بالواسطہ طور پر بھی ان کو زیر بحث لایا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ والدین جب بوڑھے ہوکر چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور ان کی باتیں تمھیں بری لگنے لگتی ہیں، تب بھی تم ان کو اف تک نہ کہنا۔ وہ سمجھاتا ہے کہ ان کو جھڑکنے اور تلخ جواب دینے کے بجائے احترام سے ان سے بات کی جائے۔ یہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا سب سے بنیادی اور اہم تقاضا ہے۔ اس کے ساتھ قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ماں باپ تمھارے انفاق کے سب سے پہلے اور بنیادی حقدار ہیں۔
مال اور زبان سے والدین کی خدمت کے علاوہ قرآن عمومی طور پر بھی ان کے سامنے فرمانبرداری اور شفقت و محبت کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے سوائے اس کے کہ والدین شرک کا حکم دیں۔ اسی طرح والدین عدل و انصاف سے ہٹانے کی کوشش کریں تب بھی ان کی اطاعت لازم نہیں بلکہ والدین کے بجائے انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق والدین سے زیادہ اہم ہے۔ تاہم اس کے باوجود والدین سے حسن سلوک اور معروف طریقے سے معاملہ کرنے کا ہی حکم ہے۔
قرآن مجید نے حضرات انبیا کے اسوہ سے یہ واضح کیا ہے کہ والدین کی خدمت، ان کے ساتھ بر و رحم کا معاملہ کرنا، ان کے لیے دعا کرنا، ان کی طرف سے اللہ کی شکر گزاری کرنا یہ سب حضرات انبیا کی سیرت و شخصیت کا حصہ رہا ہے اور اسی کی تلقین ہمارے لیے ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ شفقت و خدمت کا معاملہ کریں اور ان کے لیے اپنے رب سے دعا کرتے رہیں۔
قرآنی بیانات
”اِن سے کہو کہ آؤ، میں تمھیں سناؤں کہ تمھارے پروردگار نے تم پر کیا حرام ٹھہرایا ہے۔ یہ کہ کسی چیز کو اُس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، (اُن کے ساتھ کبھی کوئی برا رویہ اختیار نہ کرو) یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تمھیں ہدایت کی ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو،(الانعام151:6)
”تمھارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ تنہا اُسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۔ اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ اُن کو اف کہو اور نہ اُن کو جھڑک کر جواب دو، تم اُن سے ادب کے ساتھ بات کرو۔ اور اُن کے لیے نرمی سے عاجزی کے بازو جھکائے رکھواور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، اُن پر رحم فرما، جس طرح اُنھوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا تھا۔ (لوگو)، تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند رہو گے تو پلٹ کر آنے والوں کے لیے وہ بڑا درگذر فرمانے والاہے۔“، (بنی اسرائیل23-25:17)
”پروردگار، تو مجھ کو بخش دے اور میرے والدین کو اور سب ایمان والوں کو بخش دے، اُس دن جب کہ حساب قائم ہو گا۔“،(ابراہیم41:14)
”میرے مالک، تو مجھے معاف فرما دے، میرے ماں باپ کو معاف فرما دے، اُن سب کو معاف فرما دے جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہو جائیں۔“،(نوح28:71)
”(سلیمان نے یہ سنا) تو اُس کی بات سے خوش ہو کر وہ مسکرایا اور بولا: اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے فضل کا شکر گزار رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا ہے اور ایسے اچھے کام کروں جو تجھے پسند ہوں اور اپنی رحمت سے، (اے پروردگار)، تو مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل کر لے۔“،(النمل19:27)
”ہم نے یہی حکمت لقمان کو بھی دی (اور ہدایت فرمائی تھی) کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر کرے گا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرے گا اور جو ناشکری کرے گا (تو اللہ کو اُس کی کچھ پروا نہیں)، اِس لیے کہ اللہ بے نیاز ہے، وہ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔ (اِس کا لازمی تقاضا ہے کہ کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرایا جائے)۔ یاد کرو، جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا، اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہم نے انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں بھی نصیحت کی ہے۔ اُس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اُس کو پیٹ میں رکھا اور (پیدائش کے بعد) کہیں دو سال میں جا کر اُس کا دودھ چھڑانا ہوا۔ (ہم نے اُس کو نصیحت کی ہے) کہ میرے شکرگزار رہو اور اپنے والدین کے۔ (بالآخر) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔“،(لقمان12-14:31)
”اور اپنے والدین کا فرماں بردار بھی تھا، سرکش اور نافرمان نہیں تھا۔“،(مریم14:19)
”وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اچھا، پھر کیا خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جتنا مال بھی خرچ کرو گے، وہ تمھارے والدین، اعزہ و اقربا، اور (تمھارے ہی معاشرے کے) یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، (اِس لیے جتنی ہمت ہے، خرچ کرو) اور (مطمئن رہو کہ) جو نیکی بھی تم کرو گے، وہ ہرگز ضائع نہ ہوگی، اِس لیے کہ اللہ اُس سے پوری طرح واقف ہے۔“،(البقرہ215:2)
”ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔“،(النساء 135:4)
”ہم نے انسان کو اُس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی ہے، لیکن (ساتھ ہی واضح کر دیا ہے کہ) اگر وہ تمھارے درپے ہوں کہ تم کسی کو میرا شریک ٹھہراؤ جس کا تمھیں کوئی علم نہیں ہے تو اُن کی بات نہ ماننا۔ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر میں تمھیں بتاؤں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔“،(العنکبوت 8:29)
”ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کر رکھی ہے۔ اُس کی ماں نے بڑی مشکل سے اُس کو اپنے پیٹ میں رکھا اور بڑی مشکل سے اُس کو جنا اور اُس کا پیٹ میں رکھنا اور اُس کا دودھ چھڑانا (کم و بیش) تیس مہینوں میں ہوا۔ یہاں تک کہ (اِن سب مراحل سے گزر کر) جب انسان اپنی پختگی کو پہنچتا ہے اور چالیس برس کا ہو جاتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ میرے پروردگار، مجھے سنبھال کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا اور وہ نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہیں۔ اور تو میری اولاد میں بھی میرے لیے نیک بختی پیدا کر دے۔ میں تیری طرف رجوع لایا اور بے شک، میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“، (الاحقاف15:46)
”اور یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔“،(البقرہ83:2)
”اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اِسی طرح مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اتراتے اور اپنی بڑائی پر فخر کرتے ہیں۔“،(النساء 36:4)