بیماری بھی ایک نعمت ہے ۔ ابویحییٰ
عربی زبان کا ایک مقولہ ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ صحت وہ تاج ہے جسے پہن کر انسان بادشاہ بن جاتا ہے، مگر یہ تاج صرف بیماروں کو نظر آتا ہے۔ یہ صحت کی اہمیت کے حوالے سے ایک بہت ہی بلیغ بات ہے جو کمال خوبصورتی سے اس حقیقت کا بیان ہے کہ صحت اس دنیا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ نعمت اپنی نوعیت کے لحاظ سے بادشاہی سے کم نہیں ہے کیونکہ بادشاہ وہ ہوتا ہے جو ہر طرح کے کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
صحت مند انسان کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ جو چاہے کھا سکتا ہے۔ جہاں چاہے جاسکتا ہے۔ مگر جیسے ہی انسان بیمار ہوتا ہے اس کے سر سے یہ ’’تاج‘‘ ہٹ جاتا ہے۔ وہ بستر پر جالگتا ہے اور کہیں آنے جانے کے قابل نہیں رہتا۔ طبیب یا ڈاکٹر اسے پرہیز بتا دیتا ہے اور وہ اپنی پسند کا کھا نہیں سکتا۔ انسان نہ کاروبار کرسکتا ہے نہ ملازمت۔ بیماری شدید ہو تو ہسپتال کے بستر پر اور ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر پڑے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
بیماری: عارضی مصیبت مگر مستقل نعمت
صحت کی یہ نعمت ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر جیسا کہ عربی مقولے میں بتایا گیا ہے کہ صحت مند نارمل زندگی گزارنے والے لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ عام طور پر ہم صحت مند رہتے ہیں اور شروع دن ہی سے صحت ہمیں ملی رہتی ہے اس لیے ہم اسے معمول کی چیز سمجھتے ہیں۔ یہ ہمیں کوئی خاص بات نہیں لگتی۔ صحت کی اس عظیم نعمت پر ہم اپنے رب کی شکرگزاری کرنا تو دور کی بات ہے اس کی ناشکری، نافرمانی، غفلت و معصیت حتیٰ کہ سرکشی اور بغاوت کا ارتکاب بھی مسلسل کرتے ہیں۔
ایسے میں یہ رب کی رحمت ہے جسے جوش آتا ہے۔ ہمارا مہربان رب یہ دیکھ لیتا ہے کہ بندہ اگر اسی طرح غافل رہا تو جہنم کی سزا اور ابدی پکڑ کا شکار ہو جائے گا۔ یا جنت کے جن درجات کو یہ حاصل کرسکتا ہے، ان سے محروم رہ جائے گا۔ چنانچہ ایسے میں اللہ تعالیٰ بیماری کو بھیجتے ہیں۔
یہ بیماری بظاہر ایک مصیبت ہے۔ آتی ہے تو انسان ہی نہیں، اس کا پورا خاندان ہل کر رہ جاتا ہے۔ مگر یہ ایک عارضی مسئلہ ہوتی ہے۔ اسے چلے جانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ انسان کے گناہ جھاڑ جاتی ہے۔ انسان کے درجات بلند کر جاتی ہے۔ انسان کو رب سے قریب کر جاتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے بیماری کی بہت تکلیف دہ، مگر عارضی صورتحال ایک مستقل نعمت یعنی خدا کی رحمت کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ جب بھی بیماری آئے، کبھی بے حوصلہ نہ ہوں۔ صبر سے کام لیں۔ یہ مشکل وقت گزر جائے گا، مگر آپ کے لیے ختم نہ ہونے والا اجر ہمیشہ کے لیے لکھ دیا جائے گا۔
بیماری اور تکلیف کا اجر
قرآن مجید اور احادیث میں انسان کی یہ ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ کسی دکھ بیماری کے موقع پر اس عظیم حقیقت کو یاد رکھے کہ اس دنیا کا کھونا بھی پانا ہی ہے۔ اس بیماری میں جو دکھ، تکلیف، مالی نقصان اور جسمانی آزار انسان کو پہنچتا ہے اس کا اجر انسان کو انشاء اللہ بہت زیادہ دیا جائے گا۔ قرآن مجید سورہ بقرہ میں صحابہ کرام کو جو بات فرماتا ہے کہ ہم تمھیں کچھ خوف، بھوک، جان، مال اور پیداوار کے نقصان سے آزمائیں گے، جزوی طور پر ہر انسان کے بارے میں درست ہے۔ جان کا نقصان بیماری کی شکل میں ہر شخص کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مگر جو بشارت صحابہ کو دی گئی وہ ہر صبر کرنے والے کے لیے ہے جو مصیبت آنے پر اللہ ہی کو یاد کرتے ہیں۔ ان پر اللہ کی رحمت و عنایت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بشارت کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
احادیث طیبہ میں بھی بکثرت دکھ و بیماری پر صبر کا اجر بیان کیا گیا ہے۔ چند ارشادات درج ذیل ہیں۔
جس شخص سے اللہ جل شانہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے مصائب میں مبتلا کر دیتے ہیں (بخاری، رقم5645)
جب کسی مومن آدمی کو کوئی کانٹا چبھتا ہے یا اس سے بڑھ کر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے یا اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے، (مسلم، رقم6562)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو بیماریوں کے ذریعے آزماتا رہتا ہے حتی کہ اس کے تمام گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے،(السلسلۃ الصحیحۃ، رقم3393)
جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں جاتا ہے تو اس کے وہ تمام نیک اعمال لکھ دیے جاتے ہیں جو وہ حالت قیام اور زمانہ تندرستی میں کیا کرتا تھا، (بخاری، رقم2996)
بخار کو برا نہ کہو کیونکہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ (مسلم، رقم6570)
ایک عظیم نبی کی سنت
معلوم حقیقت ہے کہ انسانوں میں سب سے بلند درجہ حضرات انبیا علیہم السلام کا ہے۔ ان کے مقام تک پہنچنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر بیماری میں انسان صبرسے کام لے اور بیماری میں حوصلہ ہارنے اور شکوہ شکایت کرنے کے بجائے اس مشکل میں بھی خدا کی یاد، نماز اور استغفار سے کام لے تو انسان کا یہ صبر اسے خدا کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کی سنت پر عمل کا عظیم موقع فراہم کرتا ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کا زمانہ کیا تھا اس کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، مگر زیادہ امکان یہ ہے کہ آپ کا زمانہ حضرت موسیٰ کے بعد اور حضرت شعیب علیھما السلام سے پہلے کا ہے۔ آپ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے عیسو کی اولاد میں سے تھے۔ آپ نبی ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ مال و دولت سردار تھے۔ ہر طرح کی نعمتیں، کثرتِ اولاد، مال و مویشی، عزت و شرف وغیرہ کی شکل میں آپ کو دی گئیں تھیں۔ بائبل کے مطابق مشرق میں آپ سے بڑا کوئی آدمی نہ تھا۔ مگر آپ بے حد شکر گزار اور عابد و زاہد تھے۔ ساتھ ہی آپ اپنی قوم کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے اور برائیوں سے روکتے۔
شیطان نے آپ کے دعوتی کام میں رخنہ ڈالنے کے لیے لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ایوب کو تو اتنی نعمتیں دی گئی ہیں کہ اسے بہرحال شکر گزار بننا ہی چاہیے اور نیکی کی باتیں کرنی چاہئیں۔ اس میں ان کا کیا کمال۔ بات تو تب ہے کہ مصیبت میں بھی یہ انہی باتوں پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لیے اپنے نبی کو ان کے سامنے ایک نمونہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ان پر مصائب و آلام آنے شروع ہوئے۔ پہلے مال و مویشی تلف ہوگیا۔ پھر ایک ایک کرکے اولاد مر گئی۔ آخر میں خود اپنے وجود پر آفت آئی اور ایک انتہائی موذی مرض کا شکار ہوگئے۔ اس صورتحال میں سب لوگ ساتھ چھوڑ گئے۔ یہاں تک کہ ایک وفادار بیوی کے سوا اور کوئی پاس میں نہیں رہا۔ مگر صبر و استقامت کے اس پہاڑ کا حال یہ تھا کہ جب کبھی کوئی مصیبت آتی تو زبان سے ایک ہی جملہ نکلتا۔
رب نے دیا، رب نے لیا، رب کا نام مبارک ہو
ایک قول کے مطابق آپ تیرہ برس تک اس آزمائش میں رہے۔ کہنا اور سننا آسان ہے، مگر دکھوں کے وہ شب و روز جن میں انسان کو ایک ایک پل صدیوں کے برابر لگتا ہے، آپ پر اس طرح آئے کہ تقریباً 4700 دن اور رات آپ اس حال میں رہے۔ مگر آپ کے صبر و شکر کی کیفیات میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ البتہ جب آزمائش بڑھتی چلی گئی تو تڑپ کر رب کو اس طرح پکارا:
أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ
یعنی اے رب مجھے سخت دکھ پہنچا ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
ارحم الراحمین
حضرت ایوب بے پناہ تکلیف میں تھے، مگر جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے تحت انہیں آزما رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے صبر کا ایک نمونہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اپنے منصب کی بنا پر وہ براہ راست یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ پروردگار تکلیف کو دور کر دے کیوں کہ یہ کہنا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف دعا کرنے کے مترادف ہوتا۔ مگر کیا بات ہے ان حضرات انبیا کی، جو خدا کے سب سے بڑے عارف ہوتے ہیں۔ جب خدا کو پکارا تو اپنا مسئلہ بیان کرکے فقط اتنا کہا کہ تو ارحم الراحمین ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس دعا میں پوشیدہ ہے اور جس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔
اللہ کا تعارف ایک شخصیت کے طور پر یہ ہے کہ وہ تنہا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں۔ جب وہ مخلوقات کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو اپنی انہی صفات کے اعتبار سے کرتا ہے۔ وہ اپنی ہر ہر صفت کے ساتھ انسانوں کی زندگی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ تاہم اس کی صفات میں کوئی صفت ایسی نہیں جو صفتِ رحمت کا مقابلہ کرسکے۔ بلکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اگر ایسی ہے جو اس کی ہر صفت پر غالب آکر توحید کی طرح اس کی شخصیت کا مستقل حصہ ہے تو وہ صفتِ رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں الرحمن کو اپنی صفت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے اور اپنے ذاتی نام کے طور پر بھی۔
یہی وہ چیز تھی جس سے حضرت ایوب واقف تھے۔ اس لیے جب تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ سے صرف اتنا کہا کہ میں دکھ میں ہوں اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ مطلب اس جملے کا یہ تھا کہ پروردگار تیری حکمت اپنی جگہ، میں تیری رضا کے خلاف جانا بھی نہیں چاہتا لیکن میں اس حکمت کے ظہور کو سہہ نہیں سکتا۔ جب کہ تیرے بارے میں حقیقت بھی یہی ہے کہ تو حکیم سہی، لیکن اصلاً تو رحمن و رحیم ہے۔ سو مجھے دیکھ کہ میں دکھی ہوں اور خود کو دیکھ کہ تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی انسان پر تکالیف بہت سی وجوہات سے آسکتی ہیں۔ امتحان، سزا، درجات کی بلندی، کھوٹ کی دوری، اور دیگر مصالحِ رب وغیرہ۔ یہ تکالیف اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا ظہور ہوتی ہیں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت رحمت کے ساتھ تڑپ کر پکارا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت جو اس کی صفات میں سب سے زیادہ اس پر غالب ہے، حرکت میں آتی ہے اور ہر دوسری صفت کو مغلوب کرکے اپنا ظہور کرتی ہے۔ یہ صفتِ رحمت ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی شخصیت پر غالب رہتی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت اور توحید کا انکار کر دیا جائے۔ ایسا کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ابدی طور پر محروم ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ صرف شرک ہی کے گناہ کو معاف نہیں کریں گے، باقی جس کو چاہیں گے معاف کر دیں گے۔
چنانچہ جیسے ہی حضرت ایوب نے تڑپ کر رب کو اس کی رحمت کے ساتھ پکارا تو سارے معاملات ٹھیک کر دیے گئے۔ ان کی صحت، اولاد، مال نہ صرف لوٹا دیے گئے بلکہ زیادہ دے دیے گئے اور قرآن میں ابد تک کے لیے ان کے لیے یہ شاندار الفاظ نقل کر دیے گئے کہ ہم نے اسے صابر پایا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ تھا۔ بیشک وہ رجوع کرنے والا تھا۔
ہسپتال مقام عبرت، مقام نصیحت
بیماری کا جب بھی ذکر چھڑتا ہے تو ذہن بے اختیار ڈاکٹر اور ہسپتال کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ہسپتال ویسے تو کوئی پسندیدہ جگہ نہیں۔ چاہے آپ کسی کی عیادت کے لیے وہاں جارہے ہوں یا علاج معالجے کے لیے وہاں موجود ہوں۔ لیکن ہمارا ذہن نصیحت حاصل کرنے والا ہو تو ہسپتال جا کر بھی ہم بہت سے قیمتی سبق لے سکتے ہیں۔
پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ نصیحت حاصل کرنے کے لیے قبرستان جایا کرو۔ مگر اس دور میں نصیحت حاصل کرنے کی بہتر جگہ ہسپتال ہے۔ قبر کا مردہ اپنی بے بسی کا حال بیان نہیں کرسکتا۔ مگر ہسپتال میں پڑا بیمار زبان حال سے آپ کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کس مصیبت میں ہے اور آپ کیسی آسانی میں ہیں۔ ہسپتال اگر بیمار کے لیے مقام صبر ہے تو باقی لوگوں کے لیے مقام شکر ہے۔
اس لیے جو شخص مریض بن کے ہسپتال جائے اسے اگر صبر کرنا چاہیے تو عیادت کے لیے وہاں جانے والوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی نعمتوں اور عافیت کا ادراک کریں۔ اس رب کی شکر گزاری کے احساس میں سراپا نیاز بن جائیں جس نے بلا استحقاق انھیں صحت کی وہ دولت عطا کی ہے جو کسی بادشاہی سے کم نہیں ہے۔
عیادت کا اجر اور آداب
بیماری کے موقع پر کسی کی عیادت کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری اور ایک تہذیبی روایت ہے۔ مگر ہمارے دین نے اس کو ایک مذہبی روایت بھی بنا دیا۔ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات درج ذیل ہیں۔
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر، جب وہ تجھ سے خیر خواہی و نصیحت طلب کرے تو اس سے خیر خواہی کر، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ کہہ کر جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی کر اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، (صحیح مسلم،رقم2162)
مریض کی عیادت کرنے والا واپس آنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔ (صحیح مسلم،رقم2568)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مریضوں کی عیادت کا حکم دیا، ( بخاری،رقم5635، مسلم، رقم2066)
اس ضمن کی سب سے خوبصورت روایت یہ حدیث قدسی ہے:
اللہ رب العزت قیامت کے دن کہے گا ’’اے آدم کی اولاد! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی‘‘، بندہ کہے گا ’’اے اللہ کیسے میں تیری عیادت کرتا جبکہ تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے؟‘‘ اللہ کہے گا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا، تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کو نہ گیا؟ کیا تجھے خبر نہیں، اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو تم مجھ کو اس کے پاس پاتے‘‘ ،(مسلم، رقم2569)
عیادت کا یہ اجر اپنی جگہ مگر آج کل لوگ عیادت کرتے وقت بعض ایسے معاملات کرتے ہیں کہ یہ عیادت بیمار اور اس کے اہل خانہ کے لیے جو پہلے ہی پریشان ہوتے ہیں، مزید پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ عیادت کے لیے جاتے وقت چند امور کا خیال رکھنا چاہیے۔
اول یہ کہ اگر کوئی شخص ہسپتال میں ہے تو وہیں ہسپتال کے اوقات میں اس کی عیادت کے لیے چلے جائیں۔ کیونکہ وقت پر مزاج پرسی ہی بہتر ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بیمار اور ان کے اہل خانہ کو بھی حوصلہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر اگر ممکن ہے تو کچھ ایسی چیزیں ساتھ لے جائیں جن کی ان کو ضرورت ہوسکتی ہے۔ جیسے ہسپتال میں تیماردار کے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر جایا جاسکتا ہے۔ تعلق قریبی ہے تو جانے سے پہلے پوچھا بھی جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر ان کو کسی مالی مدد کی ضرورت محسوس ہو اور آپ کرسکتے ہیں تو ضرور کیجیے۔
عیادت کے لیے جائیں تو کوشش کریں کہ کم سے کم وہاں رکیں۔ اگر مریض یا تیماردار اصرار کریں یا ان کو ضرورت ہو تو پھر زیادہ رکنا بھی مناسب ہوگا۔ ورنہ مختصر وقت گزارنے کے بعد وہاں سے رخصت ہو جائیں۔
اگر کوئی شخص گھر پر ہے مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ مزید کچھ چیزوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ جب کسی کے ہاں جائیں تو اجازت لے کر جائیں۔ ایسے وقت میں مت جائیں جب کھانے کا وقت قریب ہو۔ ورنہ انھیں آپ کے لیے بھی اہتمام کرنا پڑے گا جو ان کے لیے باعث مشقت ہوگا یا پھر وہ آپ کے جانے کا انتظار کریں گے جس سے انھیں زحمت ہوگی۔
کسی قسم کی فرمائش نہ کیجیے۔ چائے وغیرہ کا پوچھا بھی جائے تو اصرار کرکے منع کر دیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ تعزیت اور عیادت کے موقع پر کسی کے ہاں جاتے وقت یہ رواج ہونا چاہیے کہ کسی کو کوئی چیز پیش نہ کی جائے اور نہ کوئی اس کا برا مانے۔ مہمان نوازی کے مواقع دوسرے ہوتے ہیں۔ یہ مواقع غمگساری کے ہوتے ہیں نہ کہ پریشان لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کرنے کے۔ کیونکہ بیمار کے گھر تو دس لوگ آتے ہیں۔ وہ ہر شخص کے لیے میزبانی کرے گا تو جانی اور مالی طور پر مزید بوجھ ان لوگوں پر پڑ جائے گا۔
اپنی صحت کا خیال
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو جسم عطا کیا ہے وہ ایسی صلاحیت رکھتا ہے کہ خود کو ہر طرح کی بیماری سے بچائے۔ مگر ہم خراب معمولات، غذا، ورزش نہ کرنے، سونے جاگنے کے اوقات کی خرابی اور غیر ضروری پریشان رہنے کی عادت کی بنا پر اپنے جسم کو کمزور کر لیتے ہیں۔ جس کے بعد وہ کسی بھی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماری اگر اس چیز کا موقع ہے کہ ہم اپنے گناہوں اور کمزوریوں کا احتساب کرکے رب سے معافی مانگیں تو اس بات کا بھی موقع ہے کہ ہم اپنی عادات اور معمولات پر نظر ثانی کریں۔
اس طرح ہم مستقبل میں بیماریوں اور پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ اللہ سے عافیت کی دعا کریں۔ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعاؤں کو پڑھنا بہت مفید رہتا ہے۔ چاہیں تو اپنی زبان میں بھی ہر نماز میں صحت و عافیت کی دعا کو معمول بنا لیں۔ انشاء اللہ بہت سی تکالیف سے بچے رہیں گے۔
موت کا وزیٹنگ کارڈ
اس ضمن میں آخری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ بیماری موت کا وزیٹنگ کارڈ ہے۔ بیماری یہ بتاتی ہے کہ اس جسم کو ایک روز موت کا سامنا کرنا ہے۔ اس لیے ہر بیماری اس وقت کی یاددہانی کا سبب بن جانی چاہیے جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں گے۔ اس وقت کے لیے ہم نے کیا تیاری کر رکھی ہے۔ آگے کیا بھیج رکھا ہے، اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
اس جنت کے بارے میں سوچنا چاہیے جس میں موت ہوگی اور نہ کوئی بیماری۔ کوئی دکھ ہوگا اور نہ کوئی آزاری۔ کوئی مشکل ہوگی اور نہ کوئی پریشانی۔ نہ جان پر کوئی تکلیف آئے گی نہ مال پر کوئی آنچ آئے گی۔ وہ دن تو آئے گا اور اس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ وہ زندگی تو حق ہے اور اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس لیے بیماری کے موقع کا فائدہ اٹھا کر جنت کی تیاری کا عزم کیجیے۔ ورنہ دوسرا انجام جہنم ہے جس میں ہر دکھ، غم، تکلیف اور اذیت جمع کر دی جائے گی۔ یہ بیماری تو ختم ہو جائے گی۔ وہ عذاب کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس سے بچنے کا عزم کیجیے۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعث رحمت بن کر رہیں، باعث آزار نہ بنیں۔