مضامین قرآن (59) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: صبر و رضا ۔ ابویحییٰ
صبر و رضا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی ایک انتہائی اہم اور بنیادی اساس ہے۔ قرآن مجید نے اس تقاضے کی اہمیت، مواقع، اجر اور فوائد کو اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے۔ خلاصہ اگر کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں بندگی کی زندگی صبر کے بغیر ممکن نہیں اور آخرت میں ملنے والا خدا کی جنت کا ابدی انعام اسی صبر کا بدلہ ہے۔
صبر کا مفہوم
صبر پر گفتگو سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر صبر کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مشکلات میں انسان کو دکھ اور تکلیف محسوس نہ ہو۔ جبکہ دراصل صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان دکھ اور تکلیف محسوس کرنا بند کر دے۔ انسان جب تک انسان ہے وہ دکھ اور تکلیف کو محسوس کرے گا۔ وہ محرومی اور مصائب پر غم کا شکار ہوگا۔ وہ نامساعد حالات میں حزن و الم کی کیفیات کو اپنے اندر پائے گا۔ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ انسانی محسوسات ختم ہوجائیں۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ یہ دکھ،ت کلیف، محرومی، مصائب اور منفی حالات اسے راہ حق سے ڈگمگانے نہ پائیں۔ وہ خدا سے مایوس نہ ہو۔ اپنے مالک سے بدگمانی نہ کرے۔ اس کے خلاف سرکشی اور بغاوت کا ارتکاب نہ کرے۔ جو مطالبات اس سے کیے گئے ہیں، ان کو ہر طرح کی پریشان کن صورتحال میں بھی پورا کرتا رہے۔
صبر کرنے کے اہم مواقع
منفی حالات کی بنا پر اس طرح کی پریشان کن صورتحال عام طور پر تین وجوہات سے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے ان تینوں کی نشان دہی خاص طور پر کرتے ہوئے، ان مواقع پر صبر کرنے کو حقیقی نیکی اور وفاداری کا ایک اعلیٰ مظہر قرار دیا ہے۔ یہ تین مواقع مالی تنگی، جسمانی آزار، اور جنگ و جدل ہیں۔ ان میں سے مالی تنگی وہ چیز ہے جس کا سامنا معاشرے کی اکثریت کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔ غربت جب آجاتی ہے تو اکثر ڈیرا ڈال دیتی ہے۔ ایسے میں انسان خواہشات تو کجا اپنی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ضروریات کسی نہ کسی طرح پوری ہوجائیں تو قدم قدم پر دل کو خواہشوں کا قبرستان بنانا پڑتا ہے۔ خوراک، لباس، گھر، سواری میں محرومی یا گزارہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ صورتحال کسی بھی باشعور انسان کو منفی بنا سکتی ہے۔ وہ حلال کی لکیر عبور کر کے حرام کی سرحد میں داخل ہوسکتا ہے۔ وہ کوئی مجرمانہ روش اختیار کرسکتا ہے۔ حتیٰ کہ خدا سے باغی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں یہ صبر ہی ہے جو انسان کو حوصلہ اور یہ ہمت دیتا ہے کہ وہ اسے خدا کا امتحان سمجھے اور کبھی اپنی محرومی اور تنگی کو ناشکری، نافرمانی اور مایوسی میں نہ بدلنے دے بلکہ پورے حوصلے اور ہمت کے ساتھ محنت کرتا رہے اور خدا کی اس رحمت کا انتظار کرے جو عام طور پر محنت کرنے والوں کے دن پھیر ہی دیتی ہے۔
مالی تنگی سے کہیں سخت امتحان بیماری کا ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر شخص کو کبھی نہ کبھی جس مسئلے کا سامنا کرنا ہوتا ہے وہ بیماری ہے۔ چھوٹی بڑی بیماری ہر شخص کی زندگی میں آتی ہے۔ یہ بیماری انسان کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ درد اور تکلیف بعض اوقات انسان کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ بیمار انسان لاچار ہوجاتا ہے۔ وہ چلنے پھرنے، کھانے پینے، آنے جانے حتیٰ کہ بعض اوقات سونے سے بھی خود کو عاجز پاتا ہے۔ دنیا بھر کے وسائل بھی انسان کے پاس ہوں تو بعض اوقات شفا نہیں ملتی۔ یا ملتی ہے تو بیماری کے اپنے وقت پورا کرنے کے بعد ہی ملتی ہے کیونکہ یہ خدا کا قانون ہے کہ موت اور معذوری مقدر نہ ہو تو جس طرح بیماری آتی ہے، اسی طرح چلی بھی جاتی ہے۔ مگر اس عرصے میں اپنے حوصلہ پر قابو پانا، ضبط کے بندھن کو قائم رکھنا، زبان کو شکوے شکایت سے باز رکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ مگر صاحبان ایمان صبر کے ساتھ یہ مشکل بھی جھیل لیتے ہیں۔ جس کے بعد بیماری تو چلی جاتی ہے، مگر خدا کی رحمت کی برکھا ان کے وجود کو اپنی عطا سے بھگو دیتی ہے۔
نامساعد حالات کی تیسری اہم قسم جنگ ہے۔ جنگ جب آتی ہے تو انسان کی جان،مال، آبرو سب خطرے میں پڑجاتی ہے۔ امن وامان اٹھ جاتا ہے۔ تحفظ ختم ہوجاتا ہے۔ کوئی نقصان نہ بھی پہنچے تو خوف و اندیشے کے بادل انسان کو گھیر لیتے ہیں۔ دہشت اور پریشانی کا ماحول ہرسو چھا جاتا ہے۔ کلیجے منہ کو آجاتے ہیں۔ جنگ مسلط ہوجائے تو موت کے سائے چھا جاتے ہیں۔ زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ عزت و آبرو بے وقعت قرار پاتی ہے۔ جائیدادیں بے قیمت ہوجاتی ہیں۔ خوارک کی کمی ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں حوصلہ قائم رکھنا بڑا مشکل ہے۔ مگر یہ بھی امتحانوں میں سے ایک امتحان ہوتا ہے۔ افراد اور قومیں دونوں اس مرحلے سے گزر جاتی ہیں۔ مگر جو لوگ جنگ کے حالات میں اپنے موقف پر ثابت قدم رہیں، دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، ظلم اور نافرمانی سے باز رہیں، نیکی اور پرہیزگاری کی روش پر قائم رہیں؛ وہی خدا کے ہاں وفادار قرار پاتے ہیں۔
ان تین طرح کے حالات کے علاوہ قرآن مجید صبر کا ایک اور اہم موقع وہ بیان کرتا ہے جس میں انسان برائی کے جواب میں بھلائی کا رویہ اختیار کرتا اور ظلم کے موقع پر درگزر کی خو اختیار کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی وصف نہیں ہے بلکہ ایک اعلیٰ ترین انسانی وصف ہے جس کا مظاہرہ اعلیٰ ترین کردار کے لوگ کرتے ہیں۔ جس شخص میں صبر کرنے کا حوصلہ وہی شخص لوگوں کو معاف کرنے کی طاقت خود میں پیدا کرسکتا ہے۔
نیکی کی زندگی اور دعوت کی راہ میں صبر
مالی تنگی، بیماری اور جنگ میں پیش آنے والے مصائب و آلام پر حوصلہ نہ ہارنا اور دوسروں کی زیادتیوں کے باجود ان کو معاف کر دینا صبر کے اہم مواقع ہیں۔ تاہم صبر اپنی ذات میں ایک وسیع تر انسانی استعداد ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر طرح کے اپنے اس موقف پر قائم رہے جسے اس نے عقلی طور پر درست سمجھا اور اصولی طور پر اختیار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ جس طرح نامساعد حالات میں مطلوب ہے، آسانی و راحت میں بھی اسی طرح مطلوب ہے۔ مگر انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ انسان آسانی ملنے پر راہ حق سے دور ہٹنے لگتا ہے۔ دولت انسان کو بخیل بناتی ہے یا نمود ونمائش کا عادی۔ حسن، ذہانت اور صلاحیت انسان میں تکبر پیدا کرتے ہیں۔ طاقت اور قوت انسان کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے۔ جاہ و منصب انسان کو بدعنوانی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ مال اور فراغت کی کثرت انسان کو عیاشی اور بدکاری کی لت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
چنانچہ ضروری ہے کہ انسان نے جس حق کو درست سمجھا ہے وہ نہ صرف اس کو اختیار کرے بلکہ اس پر ثابت قدم بھی رہے۔ یہی ثابت قدمی وہ صبر ہے جس کی خو پیدا کیے بغیر انسان نیکی کو اختیار نہیں کرسکتا اور گناہ سے بچ نہیں سکتا۔ سورہ عصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو نہ صرف خود اختیار کرے بلکہ اس حق کی تلقین اور اس پر ثابت قدم رہنے یا صبر کرنے کی تلقین دوسروں کو بھی کرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ تلقین عام نہ ہو تو معاشرے سے ہر خیر ختم ہوجائے گا۔ پھر ہر حسین زانی، ہر ذہین شاطر، ہر طاقتور ظالم اور ہر دولتمند متکبر بن جائے گا۔ یہ صبر ہی ہے جو انسان کو راہ حق پر قائم رکھتا ہے۔ یہی صبر ہی نیکی کی اساس ہے۔
نیکی کے ساتھ دعوت دین کے کاموں میں بھی صبر کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان جب بھی دوسروں کو نیکی کی تلقین کرتا ہے، برائیوں پر توجہ دلاتا ہے، معروف پر ابھارتا اور منکر پر آواز اٹھاتا ہے تو لوگ اس کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ ایسے انسان کو تنہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اسے اذیت دی جاتی ہے اور اس کی جان، مال اور آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ایسے میں انسان میں صبر کا ملکہ اور ضبط کا حوصلہ نہ ہو تو انسان دعوت کے اس کٹھن مشن پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس راستے میں زادِ راہ یہی صبر ہے جو انسان کو حوصلہ دیتا ہے اور اسے اپنے نصب العین پر جمائے رکھتا ہے۔
صبر و رضا اور اس کا بدلہ
صبر کی یہ تمام اقسام انسان اختیار نہیں کرسکتا جب تک کہ انسان خدا کے فیصلوں پر راضی ہونا نہ سیکھ لے۔ وہ یہ حقیقت نہ سمجھ لے کہ یہ دنیا اس لیے نہیں بنی کہ خدا بندے کو راضی کرے۔ یہ دنیا اس لیے بنی ہے کہ بندہ اپنے رب کو راضی کرے۔ وہ دنیا آگے آرہی ہے جہاں خدا بندے کو راضی کرے گا اور اس طرح راضی کرے گا کہ جو بندے کا دل چاہے گا وہ پائے گا اور جو کچھ بندہ مانگے گا اسے دیا جائے گا۔ چنانچہ ہر طرح کے حالات میں خدا سے راضی رہنے کا وصف ہی وہ چیز ہے جو انسان کو صبر پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ صبر کی کنجی ہے۔جسے یہ ملی وہی اس دنیا میں صبر کرے گا اور وہی آخرت میں خدا کی ابدی نعمتوں کا حقدار بنے گا۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ صبر کرنے والوں کے ساتھ خدا ہوتا ہے اور انھیں اپنی معیت کا شرف عطا کرتا ہے۔ وہ ان پر نظر عنایت کرتا، انھیں اپنی رحمت سے نوازتا اور ہدایت کے سیدھے راستے پر قائم رکھتا ہے۔ یہ چیزیں جب آدمی کو ملتی ہیں تو اس کے قلب پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ غم و الم کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ حوصلہ بلند ہو جاتا ہے۔ جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ مایوسی کے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں۔ امید کی روشنی جگمگا اٹھتی ہے۔ وہ انسان جو ایک نفسیاتی وجود ہے، اس کی نفسیات کل کی کل بدل جاتی ہے۔ وہ بدترین حالات میں بھی مطمئن رہتا ہے۔ اس نے ہر طرح کے حالات میں خدا سے راضی رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کا نقد عوض اس طرح ملتا ہے کہ اس کا دل سکون سے بھر جاتا ہے۔ یہ سکون ہی وہ چیز ہے جو انسان کی ہر جدوجہد کا آخری حاصل ہے۔ اگر یہ مل جائے تو پھر غم غم نہیں رہتا۔ دکھ دکھ نہیں رہتا۔ مایوسی مایوسی نہیں رہتی۔ بدحالی بدحالی نہیں رہتی۔
دین کی دعوت کو جو لوگ زندگی بناتے ہیں، ان کے صبر کا بدلہ یہ ملتا ہے کہ کسی مخالف کی سازش اور مکران کی دعوت کو ختم نہیں کر پاتا۔ خدا کی نصرت اور اس کی تائید کے زندہ نمونے وہ بار بار اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ خدا کی مصلحت ہو تو سیاسی اقتدار انھیں دے دیا جاتا ہے اور نہ ہو تو فکری امامت تو بہرحال ان کا مقدر ہوتی ہے۔ تاہم کسی داعی حق کے پیش نظر اس طرح کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا۔ اسے تو یکطرفہ طور پر دعوت حق کا ابلاغ کرنا ہوتا ہے۔ یہی اس کا اصل ہدف ہوتا ہے اور یہ ہدف صبر کرنے والے داعی ضرور حاصل کرتے ہیں۔
قرآنی بیانات
ایمان والو، (یہ نعمت تمھیں عطا ہوئی ہے تو اب تمھارے مخالفین کی طرف سے جو مشکلیں بھی پیش آئیں، اُن میں) ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (مشکلات کے مقابلے میں) ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ اور جو لوگ اللہ کی (اِس) راہ میں مارے جائیں، اُنھیں مردہ نہ کہو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ زندہ ہیں، لیکن تم (اُس زندگی کی حقیقت) نہیں سمجھتے۔ ہم (اِس راہ میں) یقیناً تمھیں کچھ خوف، کچھ بھوک اور کچھ جان و مال اور کچھ پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے۔ اور (اِس میں) جو لوگ ثابت قدم ہوں گے، (اے پیغمبر)، اُنھیں (دنیا اور آخرت، دونوں میں کامیابی کی) بشارت دو۔ (وہی) جنھیں کوئی مصیبت پہنچے تو کہیں کہ لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے پروردگار کی عنایتیں اور اُس کی رحمت ہوگی اور یہی ہیں جو (اُس کی) ہدایت سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں۔‘‘، (البقرہ157-153: 2)
’’آج اُن کے صبر کا میں نے اُن کو صلہ دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں۔‘‘، (مومنون23:111)
’’یہی ہیں جن کو اُن کی ثابت قدمی کے صلے میں (بہشت کے) بالاخانے ملیں گے اور وہاں آداب و تسلیمات کے ساتھ اُن کا استقبال کیا جائے گا۔‘‘، (فرقان75:25)
’’یہی لوگ ہیں کہ اِن کی ثابت قدمی کے صلے میں اِنھیں اِن کا دہرا اجر دیا جائے گا۔ یہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور ہم نے جو رزق اِنھیں دے رکھا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘، (القصص54:28)
’’اور (یاد رکھو کہ)یہ دانش اُنھی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں اور یہ حکمت اُنھی کو عطا کی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں۔‘‘، (فصلت35:41)
’’اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا رکھیں، جبکہ ہمارے (یہ) راستے اُسی نے ہمیں بتائے ہیں۔ تم جو اذیت بھی ہمیں دے رہے ہو، ہم اُس پر ہر حال میں صبر کریں گے اور (اللہ پر بھروسا کریں گے، اِس لیے کہ) بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘، (ابراہیم 12:14)
’’یہ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کرو، اِن سے نہایت بھلے طریقے سے صرف نظر کرو۔‘‘،(مزمل 10:73)
’’سو جو کچھ یہ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو، (اے پیغمبر) اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو، سورج کے نکلنے اور اُس کے غروب ہونے سے پہلے (اور رات میں) بھی اُس کی تسبیح کرو۔‘‘،(ق39:50)
’’اور جب اُنھوں نے ثابت قدمی دکھائی اور وہ ہماری آیتوں پر یقین بھی رکھتے تھے تو اُن کے اندر ایسے پیشوا اٹھائے جو ہمارے حکم سے اُن کی رہنمائی کرتے تھے۔‘‘،(السجدہ24:32)
’’تمھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اِنھیں تکلیف پہنچتی ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اِس سے خوش ہوتے ہیں۔ (یہ تمھارے دوست نہیں ہیں، اِن کی پروا نہ کرو) اور (یاد رکھو کہ) اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اِن کی کوئی تدبیر تمھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی، اِس لیے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُس کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔‘‘،(آل عمران 120:3)
’’ہاں کیوں نہیں، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور تمھارے دشمن اِسی وقت تم پر آپڑیں تو تمھارا پروردگار پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا جو خاص نشان لگائے ہوئے ہوں گے۔‘‘،(آل عمران 125:3)
’’ایمان والو، (آخری فتح تمھاری ہوگی، لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ) صبر کرو، اپنے حریفوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، مقابلے کے لیے تیار رہو اور (تمام معاملات میں) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ کامیاب رہو۔‘‘،(ال عمران 200:3)
’’اے پیغمبر، اِن مومنوں کو (اُس) جنگ پر ابھارو (جس کا حکم پیچھے دیا گیا ہے)۔ اگر تمھارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار منکروں پر بھاری رہیں گے، اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بصیرت نہیں رکھتے۔‘‘(الانفال 65:8)
’’سو، (اے پیغمبر)، ثابت قدم رہو، جس طرح اولوالعزم پیغمبر ثابت قدم رہے اور اِن کے لیے (عذاب کی) جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ اُس چیز کو دیکھیں گے جس کی اِنھیں وعید سنائی جا رہی ہے تو محسوس کریں گے کہ گویا دن کی ایک گھڑی سے زیادہ (دنیا میں) نہیں رہے۔ تمھارا کام پہنچا دینا ہے۔ اب ہلاک تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں۔‘‘، (احقاف35:46)
’’(یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کے ساتھ وفا داری صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا، بلکہ وفا داری تو اُن کی وفا داری ہے جو (پورے دل سے) اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن کو مانیں اور اللہ کے فرشتوں کو مانیں اور اُس کی کتابوں کو مانیں اور اُس کے نبیوں کو مانیں اور مال کی محبت کے باوجود اُسے قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور مانگنے والوں پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں، اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اور (وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے کہ) جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اور بالخصوص (اُن کی) جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی ہیں جو (اللہ کے ساتھ اپنے عہدِ وفا میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو فی الواقع پرہیز گار ہیں۔‘‘،(البقرہ177:2)
’’بیٹے، نماز کا اہتمام رکھو، بھلائی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو، اور (اِس راہ میں) جو مصیبت تمھیں پہنچے، اُس پر صبر کرو۔ اِس لیے کہ یہی چیزیں ہیں جن کی تاکید کی گئی ہے۔‘‘،(لقمان17:31)
’’اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘،(المائدہ 119:5)
’’مہاجرین و انصار کے اُن لوگوں سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں اور وہ بھی جنھوں نے خوبی کے ساتھ اُن کی پیروی کی ہے۔ اللہ نے اُن کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘،(التوبہ100:9)
’’اُن کا صلہ اُن کے پروردگار کے پاس ابد کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اُس سے راضی ہوئے۔ یہ صلہ ہے اُن کے لیے جو اپنے پروردگار سے (بن دیکھے) ڈرے۔‘‘،(البینہ 8:98)
’’اور ہاں جن پر ظلم ہوا اور اُس کے بعد اُنھوں نے بدلہ لیا تو یہی ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام تو اُنھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو صبر کریں اور معاف کر دیں تو بے شک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہیں۔‘‘،(شوریٰ43-41: 42)