مضامین قرآن (58) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: انابت اور توبہ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کی جو بنیادی اساسات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک بنیادی اساس انابت اور توبہ اور اسی کے ذیل میں اوّابیت کا وصف ہے۔ انابت اللہ کی طرف متوجہ رہنے کا جذبہ ہے۔ انابت خدا کے ہمہ وقت جاری فیضان سے اعلیٰ سے اعلیٰ اور بہتر سے بہتر کو پانے کا نام ہے۔ یہ جذبہ اس احساس سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی ہستی ایک انتہائی طاقتور، باکمال، مگر بڑی رحیم و کریم اور عطا و بخشش والی ہستی ہے۔ اس کا فیضان ہر لحظہ بٹ رہا ہے۔ اس کی عطا ہر لمحہ جاری ہے۔ اس کی ہستی سراپا کرم اور اس کا وجود سراپا بخشش ہے۔ وہی ان داتا ہے۔ وہی داد رسا ہے۔ چنانچہ بندہ عاجز اس فیض لم یزل کی برسات سے ہر لمحہ اپنا دامن بھرنا چاہتا ہے۔
خدا کی بارگاہ سے اس عبدِ منیب کو جو چیز سب سے بڑھ کرملتی ہے وہ ہدایت اور توفیق ہے۔ اس لیے کہ مادی چیزیں تو اسباب کی دنیا میں امتحان کی غرض سے دی جاتی ہیں۔ یہ خدا کا اصل خزانہ نہیں، ایک متاع قلیل ہے جو ہر نیک و بد کو دیا جاتا ہے۔ مگر جب اس کی ہدایت اور توفیق ملتی ہے تو پھر انسان کو جنت کے رستوں کا نشان مل جاتا ہے۔ اسے ایمان کی غذا، معرفت کی خوراک، عمل کی توفیق اور تقویٰ کا زاد راہ دے دیا جاتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قیامت کے دن خدا کے ہر خزانے کو انسان کی دسترس میں کر دیں گی۔
تاہم انسان کمزور ہے۔ وہ خطا کا پتلا ہے۔ اس سے بھول چوک ہوجاتی ہے۔ اس پر غفلت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کے پاؤں ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس کے قدم پھسل جاتے ہیں۔ چنانچہ بندہ غلطی بھی کرتا ہے۔ نافرمانی بھی ہوجاتی ہے۔ معصیت کا صدور بھی ہوجاتا ہے۔ جرم کا ارتکاب بھی ہوجاتا ہے۔ مگر یہ لمحہ بھر کی بات ہوتی ہے۔ جذبات کی آندھی جیسے ہی ٹھنڈی پڑتی ہے۔ غفلت کا سایہ جیسے ہی دور ہوتا ہے۔ گناہ کا نشہ جیسے ہی اترتا ہے۔ یہ انابت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کا بندہ ہے۔ مالک بھی وہ جو لمحہ لمحہ کی خبر رکھتا ہے۔ جو لفظ لفظ کو جانتا ہے۔ جو نگاہ کی خیانتوں اور سینے کے رازوں سے باخبر ہے۔ جس کے فرشتے ہر چیز کو لکھتے ہیں۔ جس کے حضور ہر عمل کی پیشی ہوگی۔
یہ احساس انسان کو تڑپا دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ غلاظت میں لوٹتا رہے، وہ اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے۔ قدم پھسلتے ہی وہ سنبھلتا ہے اور دامن جھاڑ کر مالک کے حضور پیش ہوجاتا ہے۔ وہ شیطان کی باگ تڑا کر، نفس سے ہاتھ چھڑا کر اپنے مالک کے در پہ آ پڑتا ہے۔ وہ کریم آقا اور مہربان رب کے حضور رجوع کرتا ہے۔ روتا ہے۔ گڑگڑاتا ہے۔ فریاد کرتا ہے۔ اپنے مالک سے معافی مانگتا ہے۔ اپنی خطا پر توبہ کرتا ہے۔ اپنے گناہ پر شرمسار ہوتا ہے۔ اپنی بدی کو برا جانتا ہے۔ اپنے انجام سے ڈرتا ہے۔ اپنی رسوائی کے اندیشہ سے گھبرا جاتا ہے۔
جب بندہ اس طرح شرمساری کے ساتھ رجوع کرتا اور لوٹتا ہے تو اس کا مالک بھی لوٹ آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ کریم ہے۔ اس کی خُو درگزر کی ہے۔ وہ فوراً کبھی نہیں پکڑتا۔ وہ ہمیشہ موقع دیتا ہے۔ وہ مہلت دراز کرتا ہے۔ رکا رہتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہے کہ شاید غلام لوٹ آئے، لونڈی واپس آجائے۔ اور کوئی غلام لوٹ آئے۔ کوئی لونڈی واپس آجائے تو ڈانٹتا نہیں۔ شرمندہ نہیں کرتا۔ ذلیل نہیں کرتا۔ طعنے نہیں دیتا۔ پچھلا کھاتہ کھول کر رسوا نہیں کرتا۔ فرد قرارداد جرم نہیں سناتا۔ معاف کر دیتا ہے۔ گناہ دھو دیتا ہے۔ بدی کو صاف کر دیتا ہے۔ جیسے ماں بچے کی غلاظتوں کو دھوتی ہے، اسے نہلاتی ہے اور اس کو صاف ستھرا کر دیتی ہے۔
تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ توبہ میں کبھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس راہ کی تاخیر بارہا توفیق سلب کر دیتی ہے۔ گناہ انسان کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ ندامت کی جگہ سرکشی، احساس کی جگہ بے حسی اور رجوع کی جگہ غفلت لے لیتی ہے۔ انسان میں سے لوٹ آنے کی استعداد ختم ہوجاتی ہے۔ پھر ایک روز مہلت عمل کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ انسان اپنے زمانے کا فرعون ہو تب بھی اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں۔ مگر اس وقت فریاد کام آتی ہے نہ التجا۔ توبہ کام آتی ہے نہ ندامت۔ بس خدا کی پکڑ بچتی ہے۔ جو دردناک بھی ہے اور بہت سخت بھی۔
اوّابیت کا وصف
اس برے انجام سے بچنے کا طریقہ انابت کی زندگی ہے جو انسان کو خدا کی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ غلطی ہوجائے تو یہی انابت فوراً رجوع اور توبہ پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ رجوع اور یہ توبہ جو انابت کا صلہ ہے، ان لوگوں میں درجہ کمال پر ہوتی ہے جو اواب ہوتے ہیں۔ اواب کے لوٹنے میں اور عام لوگوں کی توبہ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ توبہ تو گناہ گار کرتے ہیں۔ اواب گناہ نہیں کرتے، ان کا تو ارادہ گناہ اور اجتہادی خطا بھی ان کے لیے بمنزلہ گناہ ہوتا ہے۔ دوسرے سرکشی کر کے بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور یہ ساری نیکیوں کے باوجود خود کو مجرم سمجھتے ہیں۔ دوسرے غفلت شعاری میں خوش رہتے ہیں اور یہ بندگی کی روش میں جی کر بھی خود کو غافل سمجھتے ہیں۔ دوسرے نیکیاں نہیں کرتے پھر بھی خود کو نیک سمجھتے ہیں اور یہ ساری نیکیاں کر کے بھی خود کو خطار کار سمجھتے ہیں۔
ایسے صالحین اول تو بہت محتاط زندگی گزارتے ہیں۔ مگر کبھی انسانی عجز کی بنا پر بھول چوک ہوجائے، یا کسی گندگی میں قدم پڑنے لگیں یا کبھی وقتی اور لمحاتی غفلت طاری ہوجائے یا کسی فرمان کی پاسداری نہ ہوسکے تو یہ بتائے جانے سے پہلے سمجھ جاتے ہیں۔ تنبیہ سے پہلے لوٹ آتے ہیں۔ سونے سے پہلے جاگ جاتے ہیں۔ ان کی توبہ، ان کی تڑپ اور ان کا رجوع سب بے مثال ہوتے ہیں۔ ان کی معافی کے الفاظ لوگوں کے لیے ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ ان کی توبہ کا طریقہ لوگوں کے لیے قابل اتباع بن جاتا ہے۔ ان کے دل کی تڑپ صدیوں گناہ گاروں کے دلوں کو گرماتی رہتی ہے۔ ان کی توبہ کی کہانی نسل در نسل سنائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لوٹنے پر ان کو معافی ہی نہیں ملتی، ان کے سر کو سرفراز بھی کیا جاتا ہے۔ آدم کو نبی بنا دیا جاتا ہے۔ داؤد کے سر پر بادشاہی کا تاج رکھا جاتا ہے۔ سلیمان کی بادشاہی کو بے مثال بنادیا جاتا ہے۔ ایوب کی نعمتوں اور سرداری کو کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکال کر قوم کی سرداری دے دی جاتی ہے۔
خدا ان اوابین کو اپنے قدموں سے اٹھاتا ہے۔ اپنے قرب کی منزلت عطا کرتا ہے۔ ان کے آنسوؤں سے انھیں غسل ہی نہیں دیتا، موتی بنا کر اپنے خزانے میں جمع کر لیتا ہے۔ خدا یہ کہہ کر ان کی تحسین کرتا ہے کہ نعم العبد اور بندہ جواب میں کہتا ہے کہ نعم المولیٰ و نعم النصیر۔
انابت سے لے کر اوابیت کا یہ سفر بندگی کی معراج ہے۔ جو اس معراج کو نہیں پہنچا وہ خدا کا قرب نہیں پاسکتا۔ چاہے وہ خود کو کچھ بھی سمجھتا رہے۔ چاہے دنیا اسے کچھ بھی سمجھتی رہی۔
قرآنی بیانات
’’(یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ) اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ اُن لوگوں کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ (اِسی طرح) اُن کے لیے بھی توبہ نہیں ہے جو مرتے دم تک منکر ہی رہیں۔ یہی تو ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔‘‘،(النسا17-18:4)
’’مگر یہ کہ جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے تو اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اللہ بڑا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اور جو توبہ کرے اور اچھے عمل کرے، (اُس کو مطمئن ہونا چاہیے)، اِس لیے کہ وہ پوری سرخروئی کے ساتھ اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔‘‘،(الفرقان70-71:25)
’’اِن میں سے، البتہ جو توبہ کریں اور (اپنے اِس طرزِ عمل کی) اصلاح کر لیں اور (جو کچھ چھپاتے تھے، اُسے) صاف صاف بیان کر دیں تو اُن کی توبہ میں اپنی شفقت سے قبول کر لوں گا اور (حقیقت یہ ہے کہ) میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں، میری شفقت ابدی ہے۔‘‘،(البقرہ160:2)
’’بنی اسرائیل کو، (اِس کے بعد) ہم نے سمندر پار کرایا تو فرعون اور اُس کے لشکروں نے سرکشی اور شرارت کی راہ سے اُن کا پیچھا کیا۔ یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا: میں نے مان لیا کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ کیا اب! اِس سے پہلے تو تم نافرمانی کرتے رہے اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔‘‘،(یونس90-91:10)
’’اِن سے کہو کہ میرے بندو، جنھوں نے (میرے شریک ٹھیرا کر) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ تم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اُس کے فرماں بردار بن جاؤ، اِس سے پہلے کہ تم پر اُس کا عذاب آجائے۔ پھر تمھاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘،(الزمر53-54:39)
’’اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ تم جس چیز کی طرف اِن مشرکوں کو بلا رہے ہو (کہ یہ خدا کو ایک مانیں)، وہ اِن پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی طرف آنے کے لیے چن لیتا ہے، لیکن اپنی طرف آنے کی راہ وہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘،(شوریٰ13:42)
’’(اِس کی پیروی کرو)، تم سب اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز کا اہتمام رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘،(الروم 31:30)
’’یہ منکرین کہتے ہیں کہ اِس کے پروردگار کی طرف سے اِس شخص پر کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ اِن سے کہہ دو، اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق اِسی طرح) گمراہ کر دیتا ہے اور اپنا راستہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘،(الرعد27:13)
’’ہر اُس بندے کی بصیرت اور یاد دہانی کے لیے جو توجہ کرنے والا ہو۔‘‘،(ق8:50)
’’یہی وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور اپنے پروردگار کے حدود کی حفاظت کرنے والا تھا۔ جو بن دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا اور ایسا دل لے کر حاضر ہوا ہے جو (خدا کی طرف) متوجہ رہتا تھا۔‘‘،(ق32:50)
’’تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند رہو گے تو پلٹ کر آنے والوں کے لیے وہ بڑا درگذر فرمانے والا ہے۔‘‘،(اسراء25:17)
’’اور (فرمایا کہ) اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لو اور اُس سے (اپنے آپ کو) مارو اور (اپنے کو سزا دینے کی جو قسم تم نے کھالی تھی، اُس میں) حانث نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اُسے (ہر حال میں) صابر پایا۔ کیا ہی خوب بندہ تھا! کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔‘‘،(ص44:38)
’’اور داؤد کو ہم نے سلیمان (جیسا بیٹا) عطا کیا۔ کیا ہی خوب بندہ تھا! کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔‘‘(ص30:38)
’’یہ جو کچھ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو، (اے پیغمبر)، اور بڑی قوت کے مالک، ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔‘‘،(ص17:38)