مضامین قرآن (56) اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درست اساسات: ذکر وفکر اور دعا ۔ ابویحییٰ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی اساسات کا بیان ایمان سے شروع ہوا تھا جو انکار سے اقرار کا وہ سفر ہے جو ایک بندہ عاقل عقل و فطرت کے دلائل کی روشنی میں طے کرتا ہے۔ پھر ان کی تصدیق وہ اپنی فطرت میں پاتا اور اپنے حالات میں دیکھتا ہے۔ یہ یقین اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ زندگی میں ہر اس جگہ جہاں خدا کا حکم موجود ہو خود کو اس کے حوالے کرکے اس کی فرمانبرداری کی راہ اختیار کرلے۔ اللہ سے تعلق کی دوسری اساس مادی اور روحانی نعمتوں سے پیدا ہونے والا وہ احساس تشکر ہے جو پہلے محبت میں بدلتا ہے اور پھر جب جب ضرورت ہو یہ محبت، حمیت و نصرت کے جذبے میں ڈھل جاتی ہے۔ اس تعلق کی ایک بہت اہم اساس ذکر و فکر اور دعا ہے۔
ذکر و فکر اور دعا
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ہر وہ بنیاد جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے بڑی اہم ہے اور ان کے بغیر انسان بندگی اور روحانی زندگی کا تجربہ نہیں کرسکتا لیکن ذکر و فکر اور دعا کی اساس وہ ہے جو انسان کو آخری درجہ میں اپنے رب سے جوڑ دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اگر خدا کی دریافت، اور شکر اسے نعمتوں میں پانے کا نام ہے تو ذکر و فکر خدا کی معیت میں ہمہ وقت جینے کے ہم معنی ہے۔
ذکر عام تصور کے برعکس الفاظ کی مالا جپنے کا نام نہیں۔ یہ کسی کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کی وہ کیفیت ہے جس سے عام انسانی تعلقات میں ہم ہر روز گزرتے ہیں۔ کوئی بیٹا اگر والدین سے دور بیرون ملک پڑھنے کے لیے گیا ہوا ہو تو وہ اسے یاد کرتے ہیں۔ انھیں اس کی ایک ایک ادا یاد آتی ہے۔ اس کی شکل ان کی آنکھوں میں پھرتی ہے۔ اس کا تصور ان کے روز و شب کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی باتیں، اس کی عادتیں، اس کی پسند و ناپسند ہر چیز انھیں یاد آتی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اس کا نام بھی پکار لیتے ہیں۔ اس کی خوبیوں کی تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ دل بھر آئے تو اس کی یاد میں ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ غرض یہ وہ ساری کیفیتیں ہیں جن سے ہم گزرتے بھی ہیں اور ان کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔
خدا کی یاد اس سے کچھ زیادہ مختلف چیز نہیں ہے۔ لیکن خدا کی ہستی چونکہ مخلوق سے بالکل مختلف ہے اس لیے نہ اس کا تصور قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہمارا خیال اس کا احاطہ کرسکتا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خود اپنی یاد کی بنیادیں عطا کی ہیں۔ یہ بنیادیں خدا کی حمد، تسبیح اور کبریائی کا قرینہ ہے جو خدا کا بہترین تعارف بھی ہے۔ حمد اس بات کا اعتراف ہے کہ خدا صاحب جمال ہے۔ اس سے صرف خیر کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ یکطرفہ طور پر دینے والا ہے۔ اس کی عطا و بخشش کا دروازہ ہر مخلوق کے لیے کھلا ہوا ہے۔ اس کا فیض اور اس کی برکات ہر سُو برس رہی ہیں۔ ہر حسن اس کی عطا سے مزین، ہر ساز اس کے آہنگ سے نغمہ زن اور ہر رنگ اس کے فیض سے منور ہے۔ کسی وجود میں اپنی ذات میں کوئی خوبی نہیں۔ ہر خوبی خدا میں ہے اور کسی کو کچھ ملتا ہے تو اسی کی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ لہٰذا وہی تعریف کا مستحق ہے۔ وہی ہر تعریف کا مستحق ہے۔
حمد اگر اس بات کے اظہار کا نام ہے کہ وہ خوبیوں والا ہے تو تسبیح اس بات کے اعتراف کا نام ہے کہ اس میں کوئی خامی نہیں۔ تسبیح اس سچائی کا اظہار ہے کہ خدا ہر کمزوری سے پاک ہے۔ ہر عیب سے بری ہے۔ وہ ایسا صاحب کمال ہے کہ اسے کسی معاملے میں کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔ وہ ایسا کامل ہے کہ ماں، باپ، اولاد، ساجھی اور معاون کی ہر اس ضرورت سے پاک ہے جس کی ہر مخلوق محتاج ہے۔ اس کی کوئی صفت ایسی نہیں جو کسی شر کے ظہور کا سبب بنے۔ اسے کسی قسم کا عجز اور احتیاج لاحق نہیں ہوتا۔ یہ صاحب جمال اور صاحب کمال خدا اپنی ذات میں ہر چیز سے بڑا ہے۔ خدا کی کبریائی بیان کرنا اسی حقیقت کے اعتراف کا نام ہے۔ یہ خدا کو بڑا مان کر اس کے جلال، بزرگی اور بے پناہ عظمت کے اعتراف کا نام ہے۔ اس بات کو ماننے کا نام ہے کہ خدا مخلوق کی ہر سوچ، ذہانت کی ہر سطح اور گمان کی ہر حد سے بلند اور اعلیٰ ہے۔
خدا کی یہ یاد کائنات میں غور و فکر سے جنم لیتی ہے۔ تفکر عقل کا وظیفہ ہے جو انسان کا اصل شرف ہے۔ یہ نظر آنے والے حقائق سے نظر نہ آنے والے حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ جبکہ یہ عقل انفس و آفاق کی نشانیوں سے گزر کر ان کے خالق کو دریافت کرتی ہے تو تفکر کی اس عبادت کو جنم دیتی ہے جو صرف ایک بندہ مومن ہی کا خاصہ ہوتی ہے۔ ایک منکر خدا اسباب میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ جبکہ ایک مشرک کی پہنچ غیر اللہ سے آگے نہیں بڑھتی۔ مگر فکر کی عبادت ایک بندہ مومن کو اسباب اور مخلوق سے اٹھاتی ہے اور وہ ہر معاملے میں خالق کی حکمت، قدرت، رحمت اور ربوبیت کے جلوے دیکھ لیتا ہے۔ یہی وہ تفکر ہے جو خدا کی یاد کو الفاظ کی شکل میں زبان پر جاری کر دیتی ہے۔ جس کے بعد بندہ مومن کبھی رب کی حمد کرتا، کبھی اس کی پاکی بیان کرتا ہے اور کبھی اس کی بڑائی کے نغمے گاتا ہے۔
تاہم ذکر و فکر صرف حمد، تسبیح اور تکبیر رب تک ہی محدود رہنے والی چیز نہیں۔ انسانی فکر جب خدا کو نئے نئے پہلو سے دریافت کرتا ہے تو اس کا وجود سراپا دعا جاتا ہے۔ وہ کبھی اسے اس کی ختم نہ ہونے والی ان صفات سے یاد کرتا ہے جن کی صناعی کے جلوے چار سو پھیلے ہیں۔ کبھی تڑپ کر اس کو بے تابانہ پکارتا ہے۔ کبھی دل میں اسے محسوس کرتا ہے اور کبھی بہتی آنکھوں کے سمندر میں ڈوب کر غم دنیا کو بھلا دیتا ہے۔ غرض بے حد و حساب خدا کو یاد کرنے کے بھی بے حد و حساب اسالیب ہیں جو ہر زندہ انسان ہر بندہ مومن اپنے اپنے پہلو سے ڈھونڈ سکتا ہے۔
تاہم خدا کو یاد کرنے والا یہ انسان ایک بندہ عاجز ہے۔ وہ سراپا ضرورت ہے۔ اس کے عجز کا یہ تقاضا ہے کہ وہ خدا کے حضور پیش ہوکر اس سے اپنی ضرورتیں مانگے۔ اپنی خواہشات اس ہستی کے سامنے رکھے جس کی قدرت کے نمونے چار سو پھیلے ہیں۔ عافیت، آسانی، مدد و استعانت کے ہر زاویے سے خدا کو پکارے۔ چپکے چپکے اور گڑگڑا کر اس کے حضور فریاد کرے۔ اس کی قربت، سماعت، دید اور قدرت کا یقین رکھتے ہوئے اسے پکارے۔ اس یقین کے ساتھ کہ دینے والے کے پاس سب کچھ ہے اور وہ دے بھی سکتا ہے۔ بس مانگنے کی دیر ہے۔ اس کے دربار سے کوئی شخص کسی صورت خالی نہیں لوٹتا۔ پکار سنی جاتی ہے۔ در قبولیت کھولا جاتا ہے۔ عطا و بخشش کا فیض جاری ہوتا ہے۔ گرچہ ضروری نہیں کہ اس عطا کی شکل وہی ہو جو ہم مانگ رہے ہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ مانگنے والے کو ملتا ضرور ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی جہاں اور پہلوؤں سے اسوہ حسنہ ہے وہیں ذکر و فکر اور دعا میں بھی آپ کے بیان کردہ اذکار، معمولات اور دعائیں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان کو اختیار کرنا دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے۔
قرآنی بیانات
’’اے ایمان والو! تم اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، اور اس کی تسبیح کرو صبح اور شام‘‘، (الاحزاب 41-42:33)
’’اور تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ ان کے لیے جو اللہ کی ملاقات اور روز آخرت کی توقع رکھتے ہیں اور اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتے ہیں۔‘‘،(الاحزاب 21:33)
’’اور تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھ کو پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ جو لوگ میری بندگی سے سرتابی کر رہے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پڑیں گے۔‘‘، (الغافر60:40)
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ تو چاہیے کہ وہ میرے حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘،(البقرہ186:2)
’’تو تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میری شکرگزاری کرتے رہنا، میری ناشکری نہ کرنا۔‘‘، (البقرہ152:2)
’’اس نے کہا اے میرے رب تو میرے لیے کوئی نشانی ٹھہرا دے۔ فرمایا تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے گا مگر اشارے سے۔ اور اپنے رب کو بہت زیادہ یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔‘‘،(آل عمران41:3)
’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، بے شک وہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘،(الاعراف 55:7)
’’اپنے خداوند برتر کے نام کی تسبیح کر۔‘‘،(الاعلیٰ آیت 1: 87)
’’اور کہو کہ شکر کا سزاوار ہے وہ اللہ جس کے نہ کوئی اولاد ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی ساجھی ہے اور نہ اس کو ذلت سے بچانے کے لیے کسی مددگار کی حاجت ہے اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسا کہ اس کا حق ہے۔‘‘، (بنی اسرائیل 111:17)
’’شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے، کائنات کا رب۔ رحمان اور رحیم۔ جزا و سزا کے دن کا مالک۔ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘، (الفاتحہ1-4: 1)
’’اے چادر لپیٹے رکھنے والے! اٹھ اور لوگوں کو ڈرا۔ اور اپنے رب کی کبریائی کی منادی کر‘‘، (المدثر74:1-3)